سماعتوں میں بہت دور کی صدا لے کر
سماعتوں میں بہت دور کی صدا لے کر
بھٹک رہا ہوں میں اک خواب کا پتا لے کر
تمہاری یاد برس جائے تو تھکن کم ہو
کہاں کہاں میں پھروں سر پہ اب گھٹا لے کر
تمام ہجر کے ماروں سا شب کے دریا میں
میں ڈوب جاؤں وہی چاند کا گھڑا لے کر
تمہارا خواب بھی آئے تو نیند پوری ہو
میں سو تو جاؤں گا نیند آنے کی دوا لے کر
میں خود سے دور نکلتا گیا ادھڑتا ہوا
خود اپنی ذات سے نکلا ہوا سرا لے کر
تمام شہر کی تعمیر دھوپ نے کی ہے
ملے گی چھاؤں بھی اس کا ہی آسرا لے کر
بچا ہے مجھ میں بس اک آخری شرر آتشؔ
کوئی تو آئے تری یاد کی ہوا لے کر