سیر گلشن سے جو فرصت ہو ادھر بھی دیکھو

سیر گلشن سے جو فرصت ہو ادھر بھی دیکھو
رنگ گل دیکھ چکے داغ جگر بھی دیکھو


میری میت پہ اسے خاک بسر بھی دیکھو
زندگی بھر کی ریاضت کا ثمر بھی دیکھو


نقطۂ حسن بہ انداز دگر بھی دیکھو
عشق کا زاویۂ حسن نظر بھی دیکھو


ایک ہی حسن کے جلوے نظر آئیں گے تمام
آئنہ خانۂ دنیا میں جدھر بھی دیکھو


حسرت و یاس و غم و رنج ہیں مہماں دل میں
کتنا آباد ہے اللہ کا گھر بھی دیکھو


بکھری سیندور بھری زلفوں میں روئے روشن
سرخئ شام میں عنوان سحر بھی دیکھو


مرتے مرتے نہ ہٹے راہ محبت سے قدم
مجھ میں سو عیب سہی ایک ہنر بھی دیکھو


فرق کرتے نہیں شعلہؔ خذف و گوہر میں
یہ ستم ظرفئ ارباب نظر بھی دیکھو