سفر کے بعد بھی مجھ کو سفر میں رہنا ہے

سفر کے بعد بھی مجھ کو سفر میں رہنا ہے
نظر سے گرنا بھی گویا خبر میں رہنا ہے


ابھی سے اوس کو کرنوں سے پی رہے ہو تم
تمہیں تو خواب سا آنکھوں کے گھر میں رہنا ہے


ہوا تو آپ کی قسمت میں ہونا لکھا تھا
مگر میں آگ ہوں مجھ کو شجر میں رہنا ہے


نکل کے خود سے جو خود ہی میں ڈوب جاتا ہے
میں وہ سفینہ ہوں جس کو بھنور میں رہنا ہے


تمہارے بعد کوئی راستہ نہیں ملتا
تو طے ہوا کہ اداسی کے گھر میں رہنا ہے


جلا کے کون مجھے اب چلے کسی کی طرف
بجھے دیے کو تو عادلؔ کھنڈر میں رہنا ہے