نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

پلٹ کر دیکھ بھر سکتی ہیں
بھیڑیں
بولنا چاہیں بھی تو بولیں گی کیسے
ہو چکی ہیں سلب آوازیں کبھی کی
لوٹنا ممکن نہیں ہے
صرف چلنا اور چلتے رہنا ہے
خوابوں کے غار کی جانب
جس کا رستہ
سنہرے بھیڑیوں کے دانتوں سے ہو کر گزرتا ہے