سب جسے کہتے ہیں وقف غم جاناں ہونا

سب جسے کہتے ہیں وقف غم جاناں ہونا
اولیں شرط ہے اس کے لئے انساں ہونا


غم کے داغوں نے بڑا کام بنایا دل کا
اس سیہ خانے میں مشکل تھا چراغاں ہونا


اپنے پرتو کے سوا ذہن میں کچھ بھی نہ رہا
اور سکھلایئے آئینوں کو حیراں ہونا


اف یہ دیوانگئ عشق کہ اس بزم میں بھی
جب کبھی ہوش میں آنا تو پریشاں ہونا


بزم عالم ہو کہ محشر میری دانست میں ہے
اک تجلی کا کئی رخ سے نمایاں ہونا


خار و خس کو بھی نگاہوں میں رکھیں اہل چمن
ورنہ ممکن نہیں تنظیم بہاراں ہونا


دل کے ٹکڑے سر دامن پہ لیے بیٹھا ہوں
کھیل سمجھا تھا علاج غم پنہاں ہونا


میرا کردار ہے ظاہر مرے اشعار سے کیفؔ
جیسے تصویر میں اک رنگ نمایاں ہونا