جلوے ہوں روبرو تو تماشا کرے کوئی
جلوے ہوں روبرو تو تماشا کرے کوئی
جب کچھ نظر نہ آئے تو پھر کیا کرے کوئی
حسن لطیف کیوں ہو اسیر نگاہ شوق
ہم خود یہ چاہتے ہیں کہ پردا کرے کوئی
صدہا حجاب ہائے تعین کے باوجود
وہ کیا کریں جو ان کی تمنا کرے کوئی
تھرا کے رہ گئی ہے مری کائنات ہوش
ایسے بھی سامنے سے نہ گزرا کرے کوئی
کس کس سے راہ دوست میں دامن چھڑائیے
ہر ذرہ چاہتا ہے کہ سجدہ کرے کوئی
ہر قلب مضطرب ہے مگر ان کی مصلحت
دنیا خراب غم ہے مگر کیا کرے کوئی
میری نگاہ شوق سے اس بزم ناز میں
وہ حسن آ رہا ہے کہ دیکھا کرے کوئی
دل آشنائے غم ہو تو اے کیفؔ بزم دہر
ایسا نگار خانہ ہے دیکھا کرے کوئی