کبھی گریاں کبھی خنداں کبھی حیراں ہوں میں

کبھی گریاں کبھی خنداں کبھی حیراں ہوں میں
مختصر ہے مری روداد کہ انساں ہوں میں


صحن گلشن سے مری خاک نشیمن نہ اڑا
اے صبا محرم اسرار گلستاں ہوں میں


یوں مجھے دل سے فراموش کئے بیٹھے ہیں
جیسے ان کا ہی کوئی خواب پریشاں ہوں میں


دے کے غم آپ نے تکمیل جنوں بھی تو نہ کی
سوچئے کب سے یوں ہی چاک گریباں ہوں میں


بزم کونین میں اب تک مہ و خورشید سہی
ان کی محفل میں چراغ تہ داماں ہوں میں


دل کو امید کرم رکھتی ہے مضطر یعنی
یہ بھی اک حسن طلب ہے کہ پریشاں ہوں میں


مجھ کو شرمندہ نہ کر مجھ سے اک آنسو بھی نہ مانگ
اے غم دوست بہت بے سر و ساماں ہوں میں


یہ مرا حال ہے نالہ بھی نہیں کر سکتا
اور مرا ظرف بھی دیکھو کہ غزل خواں ہوں میں


کیفؔ اس حال میں ہیں آج کل انساں کہ مجھے
شرم آتی ہے یہ کہتے ہوئے انساں ہوں میں