ساری رات کے بکھرے ہوئے شیرازے پر رکھی ہیں

ساری رات کے بکھرے ہوئے شیرازے پر رکھی ہیں
پیار کی جھوٹی امیدیں خمیازے پر رکھی ہیں


کوئی تو اپنا وعدہ ہی آسانی سے بھول گیا
اور کسی کی دو آنکھیں دروازے پر رکھی ہیں


اس کے خواب حقیقت ہیں اس کی ذات مکمل ہے
اور ہماری سب خوشیاں اندازے پر رکھی ہیں