جو بچ گئے ہیں چراغ ان کو بچائے رکھو

جو بچ گئے ہیں چراغ ان کو بچائے رکھو
میں جانتا ہوں ہوا سے رشتہ بنائے رکھو


ضرور اترے گا آسماں سے کوئی ستارا
زمین والو زمیں پہ پلکیں بچھائے رکھو


ابھی وہیں سے کسی کے غم کی صدا اٹھے گی
اسی دریچے پہ کان اپنے لگائے رکھو


ہمیشہ خود سے بھی پر تکلف رہو تو اچھا
خود اپنے اندر بھی ایک دیوار اٹھائے رکھو