خستہ جانی میں کوئی شاخ ہری چاہتے ہیں

خستہ جانی میں کوئی شاخ ہری چاہتے ہیں
ترے بیمار تری چارہ گری چاہتے ہیں


روشنی بن کے اتر شام کے محرابوں پر
اب ترے لوگ تری جلوہ گری چاہتے ہیں


چاک دامانی سے دکھتے ہیں تعلق اپنا
عشق میں ہم بھی کہاں بخیہ گری چاہتے ہیں


کس قدر دشت سے مانوس ہوئے ہیں شرفا
چھوڑ کر عیش و طرب در بہ دری چاہتے ہیں


اور کچھ اور مہک شام کی مخمور ہوا
ہم تری گود گلابوں سے بھری چاہتے ہیں