سانڈ

’’یہ کیسی بھگدڑ مچی ہے بھائی؟‘‘
سورج پورگاؤں کے ایک بوڑھے نے اپنے برآمدے سے بھاگنے والوں کو مخاطب کیا — ایک نوجوان نے رُک کرہانپتے ہوئے جواب دیا۔‘‘
’’چاچا !گاؤں میں آج سانڈ پھر گھس آیا ہے۔‘‘
’’سانڈ پھرگھس آیاہے!‘‘بوڑھے کی سفیدلمبی داڑھی اوپرسے نیچے تک ہل اٹھی —
’’ہاں چاچا!پھرگھس آیاہے اورآج تواس نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ پوچھیے مت۔ نتھو کی بچھیاکو خراب کردیا۔چھیدی کے بچھڑے کو سینگ ماردیا۔بھولو کے بیل کو ٹکریں مارمار کر لہولہان کردیا۔کالوکی گائے بھینس کے چارہ پانی کے برتن کو توڑپھوڑدیا۔بدھو اوربھولاکی تیار سبزیوں کو نوچ کھسوٹ کرملیامیٹ کردیا۔اب بھی بورایاہوا اینڈتاپھررہاہے۔ نہ جانے اورکیا کیاکرے گا؟ کس کس پر قیامت ڈھائے گا؟‘‘
’’تم لوگ دھام پوروالوں سے کہتے کیوں نہیں کہ و ہ اپنے سانڈ کوروکیں۔ادھر نہ آنے دیں۔‘‘
’’کہاتھاچاچا!گاؤں کے بہت سے لوگوں نے مل کر کہاتھا۔ان سے بتایاتھاکہ ان کے گاؤں کا سانڈ ہماراکتنانقصان کررہاہے۔مگر جانتے ہیں اُنھوں نے کیاجواب دیا۔‘‘
’’کیاجواب دیا؟‘‘
’’اُنھوں نے یہ جواب دیا کہ بھلاسانڈ کو بھی کہیں روک کررکھاجاسکتا ہے ۔سانڈ تو دیوی دیوتا کاپرسادہوتاہے۔اسے بھگوان کے نام پر چھوڑ اجاتاہے اوربھگوان کے نام کا سانڈ بھگوان کی بنائی ہوئی اس دنیامیں کہیں بھی بنا روک ٹوک جاسکتاہے۔بھگوان ہی کی طرح اس کا بھی سب پہ حق ہے ۔سب میں اس کا حصہ ہے۔وہ جوچاہے کھاسکتاہے۔ اسے روک کراپنے کو بھگوان کی نظروں میں دوشی اور نرک کا بھوگی بنانا ہے کیا ——؟چاچا!میری سمجھ میں نہیں آیاکہ دھام پورکے لوگوں نے ایسا کیوں کہا؟ کیاسچ مچ سانڈ بھگوان کے نام پرچھوڑاجاتاہے؟‘‘‘
’’ہاں بیٹے !بات تو سچ ہے۔لوگ اپنی کسی مراد کوپانے کے لیے بھگوان یادیوی دیوتا سے منت مانتے ہیں کہ اگران کی مرادپوری ہوگئی تو وہ بھگوان یادیوی دیوتاکے نام کا کوئی سانڈ چھوڑ دیں گے اوراپنی گائے کے بچھڑے کو یاکسی دوسری گائے کے بچھڑے کو خریدکرآزادچھوڑدیتے ہیں۔چھوڑنے سے پہلے اس بچھڑے کو خوب مل مل کرنہلاتے ہیں۔اس کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالتے ہیں۔گاؤں والوں کوایک جگہ جمع کرکے پو‘جاپاٹ کرتے ہیں اورسب کے سامنے بچھڑے کے جسم یاماتھے پر بھگوان یادیوی ،دیوتا کا کوئی پکّا نشان بنادیتے ہیں۔اس کے بعد وہ بچھڑے کو کھونٹے سے کھول کر آزاد کردیتے ہیں۔
چونکہ وہ بھگوان کے نام پرچھوڑاجاتاہے۔اس لیے اس کے کھانے پینے اورگھومنے پھرنے میں کوئی کسی طرح کی رکاوٹ نہیں ڈالتا اوروہ آزادی اور بے فکری سے خوب کھاپی کر بہت جلد بچھڑے سے سانڈ بن جاتاہے۔‘‘
’’پھرتودھام پوروالوں نے ٹھیک ہی کہاتھاچاچا؟‘‘
’’ٹھیک توکہاتھا،مگر یہ بھی تو ٹھیک ہے کہ کوئی اپنی بربادی کو چپ چاپ نہیں دیکھ سکتا۔ اپنے بچاؤ کے لیے اسے بھی توکچھ کرنا ہی پڑتاہے۔‘‘
’’تواب ہمیں کیاکرنا چاہیے چاچا؟‘‘
’’تم لوگ کانجی ہاؤس کے افسروں سے ملو۔گاؤں کا حال بتاؤ۔ اوران سے کہو کہ وہ دھام پور گاؤں کے سانڈ سے ہمارے گاؤں کو تباہ ہونے سے بچائیں۔ان سے یہ بھی کہو کہ یہ سانڈ پاگل ہوگیاہے۔اس لیے اسے جلد سے جلد کانجی ہاؤس میں بند کردیا جائے۔ ورنہ ہمارے گاؤں کے ساتھ ساتھ دوسرے گاؤں کو بھی روند ڈالے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے چاچا!میں آج ہی گاؤں والوں کوتیارکرتاہوں۔‘‘
سورج پوروالے اپنی تباہی کی خبر اور سانڈ کی شکایت لے کر کانجی ہاؤس پہنچے۔
کانجی ہاؤس کے افسرِ اعلیٰ نے ان کا دکھڑا سن کرکہا۔
’’آپ لوگوں کی تکلیف سن کر ہمیں بہت دُکھ ہوا ۔مگر افسوس کہ اس سلسلے میں ہم آپ کی کوئی مددنہیں کرسکتے۔‘‘
’’کیوں صاحب؟‘‘گاؤں والے اس کی طرف دیکھنے لگے۔
’’اس لیے کہ اس کانجی ہاؤس میں لاوارث سانڈ کو بندکرنے کا چلن نہیں ہے۔یہاں تو ایسے جانوروں کوبندکیاجاتاہے جن کا کوئی نہ کوئی وارث ہوتاہے۔جوکچھ دنوں کے اندراندر اپنے جانوروں کو جرمانہ بھرکرچھڑاکرلے جاتاہے۔اگرہم ایسے جانوروں کو باندھ کررکھنے لگے توکچھ دنوں میں یہ ہاؤس ہی بندہوجائے گا۔‘‘اس نے نہایت ہی نرم لہجے میں جواب دیا۔
افسر کاجواب سن کرگاؤں والے گڑگڑاکربولے‘
’’صاحب !کچھ کیجیے۔‘‘ورنہ توہمارا ستیاناس ہوجائے گا۔ہم کنگال ہوجائیں گے۔‘‘
افسر نے انہیں سمجھاتے ہوئے پھرکہا۔
’’ہم مجبورہیں۔ہم ایسے جانورکوکانجی ہاؤس میں بالکل نہیں رکھتے۔آپ لوگوں کو میری بات پر شایدیقین نہیں آرہاہے۔آئیے میرے ساتھ۔‘‘
افسر گاؤں والوں کو اپنے ساتھ لے کر کانجی ہاؤس میں داخل ہوا۔
گاؤں والوں کی نگاہیں وہاں پربندھے ہوئے جانوروں کو گھورنے لگیں۔ انہیں کہیں بھی کوئی سانڈ نہیں ملا۔وہاں تو ایسے جانور بندھے تھے جوبہت ہی کمزوراوردبلے پتلے تھے جن کے پیٹ اندرکودھنسے ہوئے تھے اور پسلیاں باہرکونکلی ہوئی تھیں۔
کانجی ہاؤس کے اندرکاحال دیکھ کر گاؤں والے واپس لوٹ آئے اوراپنے کو قسمت کے حوالے کرکے بیٹھ گئے۔
ایک دن سانڈنے گاؤں میں پھرتباہی مچائی۔اس کے بعدایک باراورگھس آیا۔ پریشان ہوکرگاؤں والے ایک جگہ جمع ہوئے۔ بوڑھے نے گاؤں والوں کو اس باریہ مشورہ دیاکہ وہ کانجی ہاؤس کے اوپروالے محکمے میں جاکراپنی فریادسنائیں۔گاؤں والے وہاں بھی پہنچے۔وہاں کے افسروں نے گاؤں والوں کی درخواست پرسنجیدگی سے غورکیااورکانجی ہاؤس کے افسران کو زوردے کرلکھا کہ وہ دھام پوروالوں کو سانڈ کی تباہی سے بچائیں اورگاؤں والوں سے کہاکہ وہ کانجی ہاؤس کے افسران سے رجوع کریں۔وہ ضرور اس سلسلے میں ضروری کارروائی کریں گے۔
گاؤں والے پھر کانجی ہاؤس پہنچے—افسران نے ان سے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔آپ لوگ سانڈ کوپکڑکرلائیے۔ہم اسے یہاں بندکرلیں گے۔‘‘
گاؤں والے کانجی ہاؤس کے افسرکی بات سن کر بہت خوش ہوئے اورگاؤں آکرانہوں نے سانڈ کوپکڑنے کی تیاری شروع کردی۔
گاؤں کے مضبوط اور پھرتیلے نوجوان ہر طرح سے تیارہوکر سانڈ کا انتظارکرنے لگے۔ جلد ہی موقع ہاتھ آگیا۔ سانڈ کے گاؤں میں گھستے ہی نوجوانوں کی ٹولی اپنے ہاتھوں میں لاٹھی اور رسّی لے کر اس کے پیچھے دوڑپڑی۔
نوجوانوں نے سانڈ کو گھیرنے اور اسے گراکرپکڑنے میں بڑی ہوشیاری دکھائی۔اَن تھک محنت کی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ سانڈ ان کے نرغے سے نکل بھاگا۔اس کوشش میں بہت سے نوجوان زخمی بھی ہوگئے۔مگر نوجوانوں نے بھی ہمت نہیں ہاری۔وہ اس کا پیچھا کرتے رہے۔ وہ سانڈ سورج پور گاؤں سے نکل کراپنے گاؤں یعنی دھام پورکی طرف بھاگا۔نوجوان بھی اس کے پیچھے دوڑے۔
دھام پوروالوں نے جب یہ دیکھا کہ کچھ لوگ ان کے سانڈ کو دوڑارہے ہیں اور دوڑانے والوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور رسّیاں بھی ہیں تووہ اپنے سانڈ کوبچانے کے لیے اپنے گھروں سے لاٹھی،بھالے اوربندوقیں لیے باہرنکل آئے اورپیچھا کرنے والوں کوللکارتے ہوئے چلائے۔
’’خبردار!وہیں رک جاؤ!آگے مت بڑھو۔اگرتم نے ہمارے سانڈ کو ہاتھ بھی لگایا توہم تمہارے ہاتھ توڑڈالیں گے۔تمھیں گولیوں سے بھون دیں گے۔یہیں زمین پرڈھیرکرکے رکھ دیں گے۔جانتے نہیں،یہ سانڈ ہمارے دیوتا پرچڑھایاگیاپرسادہے۔‘‘
سانڈ کا پیچھا کرنے والے سورج پورکے نوجوانوں نے جب دھام پوروالوں کی دھمکی سنی اوران کے ہاتھوں میں لہراتے ہوئے بھالوں،لاٹھیوں اورتنی ہوئی بندوقوں کودیکھاتوان کے پاؤں تھراکرتھم گئے اوروہ آگے بڑھنے کے بجائے منھ لٹکائے ہوئے پیچھے پلٹ آئے۔
اس حادثے کے بعد دھام پوروالے اورشیرہوگئے۔اوراب وہ اپنے سانڈ کوآئے دن جان بوجھ کر سورج پورگاؤں کی طرف ہانکنے لگے۔
سورج پورگاؤں کی تباہیاں جب حد سے زیادہ بڑھ گئیں توایک دن بوڑھے نے گاؤں کے چھوٹے بڑے سبھی کوبلاکرکہا۔
’’میرے گاؤں کے پیارے لوگو!ہم نے ہر طرح کی کوشش کرکے دیکھ لی مگر سانڈ سے اپنے گاؤں کو نہ بچاسکے اور یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ اگر ہم سانڈ کوپکڑنے کے لیے زیاوہ کچھ کریں گے تو اس کی مدد کے لیے دھام پور والے اٹھ کھڑے ہوں گے۔نتیجے میں بھاری خون خرابہ ہوگا اور تباہی مچے گی۔اس لیے اب ایک ہی راستہ بچتاہے کہ ہم لوگ بھی اپنے دیوتا کے نام پر ایک بچھڑا چھوڑدیں اورجلد سے جلد اسے سانڈ بنادیں۔‘‘
’’اس سے کیا ہوگا چاچا؟‘‘——کئی نوجوان ایک ساتھ بول پڑے۔ان کی حیران آنکھیں بوڑھے کے چہرے پرمرکوز ہوگئیں۔
’’اس سے یہ ہوگا کہ ہماراسانڈ بھی دھام پوروالوں کا وہی حال کرنے لگے گاجواپنے سانڈ سے وہ ہماراکرواتے ہیں۔اُدھربھی جب تباہی مچے گی تب ان کی آنکھیں کھلیں گی اور وہ اپنے سانڈ کو روکنے پرمجبور ہوں گے۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں چاچا۔یہ راستہ ہی ان کے لیے ٹھیک ہے۔‘‘ نوجوانوں کے چہرے انتقام کی آگ سے دہک اٹھے۔مگر بعض بزرگوں کے چہروں پرسنجیدگی طاری ہوگئی۔
سور ج پور والوں نے ایک بچھڑا خریدا اسے نہلایادھلایا۔گلے میں ہارپہنایا اور سب کے سامنے اس کی پیٹھ پردیوتاکے نام کا ایک ٹھپّہ لگاکراسے آزادچھوڑدیا۔
کمزوربچھڑاکھونٹے سے الگ ہوتے ہی آزادی اوربے فکری سی کھانے پینے اور پروان چڑھنے لگا اورسارے گاؤں کا چارہ پانی کھاپی کربہت جلد بچھڑے سے سانڈ بن گیا۔
سانڈ بن کر جب اس نے اینڈنااورسینگ مارنا شروع کیاتوسورج پوروالوں نے اس کا رخ دھام پوروالوں کی طرف موڑدیا۔ دھام پورگاؤں میں گھس کر اس نے گاؤں کو روندنا اورتہس نہس کرنا شروع کردیا۔وہاں بھی بیل لہو لہان ہونے لگے۔ان کے چارہ،پانی کے برتن بھی ٹوٹنے پھوٹنے لگے۔ان کے کھیت اورکھلیان بھی تباہ وبربادہونے لگے۔
دونوں طرف سے سانڈ ایک دوسرے کی جانب ہانکے جانے لگے۔کچھ دنو ں بعد ایک روز ایک عجیب وغریب منظررونما ہوا۔دونوں سانڈوں کو لوگوں نے ایک ساتھ گھومتے ہوئے دیکھا۔ دونوں اینڈتے ہوئے پہلے سورج پورگاؤں میں گھسے اور دونوں نے مل کرگاؤں کوروند روند کر ملیا میٹ کیا۔ پھروہاں سے ایک ساتھ نکلے اوردھام پور میں گھس کر توڑپھوڑمچانے لگے۔
یہ منظر دیکھ کر دونوں گاؤں والوں کی آنکھیں حیرت میں ڈوب گئیں۔
اس دن کے بعددونوں سانڈوں کاایک ساتھ گھومنااورمل جل کرگاؤں کوروندنا معمول بن گیا۔دونوں گاؤوں کے علاوہ آس پاس کے دوسرے گاؤں بھی ان سانڈوں کی چپیٹ میں آنے لگے۔
اپنی بربادی سے تنگ آکرآس پاس کے سبھی گاؤں والے مل جل کرسانڈوں کومارنے کا منصوبہ بنانے لگے مگرکسی طرح یہ خبرمحکمۂ تحفظِ وحشیان تک پہنچ گئی اوراس نے ان سانڈوں کی پیٹھ پر اپنا ٹھپّہ لگادیا جو اس بات کا اعلان تھاکہ یہ جانورمحکمۂ تحفظِ وحشیان کی حفاظت میں ہیں۔ انہیں کوئی بھی مارپیٹ نہیں سکتا۔
لوگوں نے یہ دیکھ کر سانڈ وں کو مارنے پیٹنے کے بجائے اپنااپناسرپیٹ لیا۔
(مجموعہ پارکنگ ایریا ازغضنفر، ص 209)