خموش رہ گئے گفتار تک نہیں پہنچے
خموش رہ گئے گفتار تک نہیں پہنچے
ہمارے زخم بھی اظہار تک نہیں پہنچے
گلہ نہیں ہے خموشی کا ان حروف کا ہے
سخن میں ڈھل کے جو معیار تک نہیں پہنچے
تمام خیموں میں جلتے رہے سخن کے چراغ
غریب خانۂ بیمار تک نہیں پہنچے
نفیٔ خاک سے اپنا حصول کیا پاتے
وہ لوگ جو کسی اقرار تک نہیں پہنچے
ہم اہل خواب تھے اپنی حدوں میں جیتے رہے
جنوں زار کے اسرار تک نہیں پہنچے
پکارتا رہا کوئی خودی کی منزل سے
ہم اپنے طالع بیدار تک نہیں پہنچے
طرازؔ کیسے سخن تھے جو امتحاں کے لئے
طلسم شب کے گرفتار تک نہیں پہنچے