روداد شوق یہ ہے مری مختصر تمام
روداد شوق یہ ہے مری مختصر تمام
رعنائیوں میں کھو گیا ذوق نظر تمام
گزرا ہے گل بدن کوئی میری تلاش میں
مہکی ہوئی ہے آج مری رہ گزر تمام
وہ دن بھی کیا تھے جب تھی ہواؤں سے گفتگو
اب ہم سے بات کرتے ہیں دیوار و در تمام
خود اپنا احتساب گوارا نہیں انہیں
اوروں میں عیب ڈھونڈتے ہیں دیدہ ور تمام
تنہائیاں نصیب کا عنوان بن گئیں
ایک ایک کر کے چھوٹ گئے ہم سفر تمام
ہونے لگے ہیں میری خموشی پہ تبصرے
اب جان لے کے چھوڑیں گے یہ چارہ گر تمام
کیا سوچ کر چلے تھے ضیاؔ راہ شوق میں
شاید نہ ہو سکے یہ سفر عمر بھر تمام