امریکہ کے بعد اب برطانیہ کی بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کی کوشش کیا گل کھلاسکتی ہے؟

کیا امریکہ کے بعد اب برطانیہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے جا رہا ہے؟

مصنف:  فرقان احمد

            پچھلے ماہ سے خبریں گرم ہیں کہ برطانیہ کی حالیہ منتخب خاتون وزیرِاعظم لزٹرس نے بیت المقدس یعنی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ان کا یہ عندیہ نہ صرف برطانیہ کی اخلاقی شکست ہے بلکہ عالمی قوانین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ عالمی روایات میں آپ کسی ملک کا دارالحکومت اس شہر کو تسلیم کرتے ہو جہاں آپ اپنے ملک کا سفارت خانہ کھولتے ہو۔ امریکہ کے بعد برطانوی وزیر اعظم لزٹرس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا سوچ رہی ہیں۔ عالمی قوانین میں قانون  کی بنیاد اقوام متحدہ کی جرنل اسمبلی  اور سلامتی کونسل کی کرارداد سمجھی جاتی ہیں۔ یہ قراردادیں کسی طور پر بھی بیت المقدس کو  اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہیں کرتیں۔ ان میں فلسطین کے لیے دو ریاستی حل پیش کیا جاتا ہے۔

برطانوی وزیراعظم  لز ٹرس  نے دو مواقعوں پر برطانوی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ایک دفعہ پچھلے ماہ منتخب ہونے سے پہلے اپنی ہی پارٹی کے یہودی دھڑے فرینڈز آف اسرائیل  کو خط لکھ کر دوسری بار حالیہ ہونے والی جرنل اسمبلی کے اجلاس کی سائیڈ لائینز پر اسرائیلی وزیر اعظم یئر لیپرڈ سے ملاقات کے دوران اس ملاقات کے بعد خبریں باہر آئیں تھیں کہ لز ٹرس نے اسرائیلی وزیراعظم  کو کہا ہے کہ وہ برطانوی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔

کیا برطانوی عوام اور برسراقتدار پارٹی  وزیر اعظم کے ارادوں کے ساتھ ہیں؟

            اس سوال کا جواب تو اسی وقت مل جاتا ہے جب برطانوی وزیر اعظم لزٹرس کی اپنی پارٹی سمیت برطانوی  چرچ تک مخالفت کرتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ دیگر برطانوی سماجی اور انسانی حقوق  کی تنظیمیں بھی تلملا اٹھتی ہیں۔

            لزٹرس کی اپنی پارٹی کے سابقہ وزیرخارجہ  ویلیم ہیگ ٹائمز اخبار کی تحریر میں لکھتے ہیں۔ کہ لزٹرس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ان کی یہ حرکت نہ صرف انہیں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کھڑا کر دے گی بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں  کی بھی مخالفت ہوگی۔ ویلیم ہیگ 2010 سے لے کر 2015 تک برطانوی وزیر خارجہ تھے۔ رپورٹس کے مطابق وہ کنزرویٹو کے سینیر ترین رہنماؤں میں سے ہیں، جنہیں پارٹی میں خاصی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی یوں کھلم کھلا مخالفت لزٹرس  کی اپنی پارٹی کے دیگر افراد کو سامنے آنے کا حوصلہ دے گی۔

            اس کے علاوہ  چرچ آف انگلینڈ کے آرچ بشپ  کی جانب سے بھی بیان سامنے آیا کہ وہ بغیر اسرائیل اور فلسطین کے مابین حل نکالے سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کی بات پر تشویش میں مبتلا ہیں۔

کون کون سے ممالک نے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر رکھا ہے؟

            دنیا میں موجود صرف امریکہ ایسا اہم ملک ہے جس نے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیا ہوا ہے۔ دسمبر 2017 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے  امریکی سفارتخانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلاان کیا تھا۔ بعد میں نیویارک ٹائمز کے صحافی نے اپنی ایک کتاب میں دعویٰ کیا کہ ٹرمپ کے اس فیصلے کے لیے لابی ایک امریکی کاروباری شخصیت نے کی تھی۔ اس کاروباری شخصیت نے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں خطیر رقم بطور فنڈنگ بھی دی تھی۔

            امریکہ کے علاوہ کوسو، ہنڈورس اور گواٹمالا ایسے ممالک ہیں جنہون نے اپنے اپنے سفارت خانے بیت المقدس میں کھول رکھے ہیں۔

مسلمان ممالک کو کیا کرنا چاہیے؟

            یہ ٹھیک ہےکہ اگر برطانوی وزیر اعظم بیت المقدس اپنے سفارتخانے کو منتقل کرنے کا  اعلان کرتی ہیں، تو ہر مسلم ملک بقدر جثہ کرے گا۔ لیکن بیان بازی صرف کافی نہیں ہے۔ مسلم ممالک کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے سفارتخانے بیت المقدس میں جا کر کھول دیں۔ لیکن فلسطین کی جانب سے میرے خیال میں بہترین جواب یہی ہےکہ کم از کم اسلامی ممالک او آئی سی کا ہیڈ کوارٹر تو بیت المقدس منتقل کر ہی سکتے ہیں، جس بات کا ارادہ انہوں نے او آئی سی سٹیچوٹ میں کر رکھا ہے۔

متعلقہ عنوانات