روتا ہوا وہ بام مجھے یاد ہے ابھی
روتا ہوا وہ بام مجھے یاد ہے ابھی
دل میں بکھرتی شام مجھے یاد ہے ابھی
پھر کیسے ہو گیا ہے وہی شخص اتنا خاص
سمجھے تھے جس کو عام مجھے یاد ہے ابھی
ہم اور ساتھ ساتھ کبھی اس طرح ملیں
جیسے خیال خام مجھے یاد ہے ابھی
وہ گفتگو نگاہوں نگاہوں میں یاد ہے
سرگوشی میں سلام مجھے یاد ہے ابھی
کیسے سنبھل سنبھل کے بڑا دیکھ بھال کر
ہم تم تھے ہم کلام مجھے یاد ہے ابھی
کیا دن تھے خواہشوں کی بڑی ریل پیل تھی
جذبوں کا ازدحام مجھے یاد ہے ابھی
پوچھا کہ میرے دل میں اقامت ہے کب تلک
اس نے کہا مدام مجھے یاد ہے ابھی
پوچھا کہ زندگی میں مرا ہم سفر ہے کون
میں نے کہا غلام مجھے یاد ہے ابھی
اب تک وہ ذائقہ بھی مجھے یاد ہے یشبؔ
ہم نے پیا تھا جام مجھے یاد ہے ابھی