شام کو اس نے میری خاطر سجنا چھوڑ دیا

شام کو اس نے میری خاطر سجنا چھوڑ دیا
میں نے بھی دفتر سے جلدی آنا چھوڑ دیا


کب تک اس کے ہجر میں آنکھیں روتیں آخر کو
دریا نے بھی اپنے رخ پر بہنا چھوڑ دیا


پہلے پہلے ہم نے کہنا سننا چھوڑا تھا
ہوتے ہوتے ہم نے باتیں کرنا چھوڑ دیا


اس نے خواب میں آنے کی امید بندھائی ہے
ہجر کی شب کو میں نے تارے گننا چھوڑ دیا


جب سے اپنے دل کے اس نے زخم دکھائے ہیں
میں نے بھی مونس سے باتیں کرنا چھوڑ دیا