رزق کا جب ناداروں پر دروازہ بند ہوا

رزق کا جب ناداروں پر دروازہ بند ہوا
بستی کے گوشے گوشے سے شور بلند ہوا


مطلعٔ بے انوار سے پھوٹا شوخ تبسم کرنوں کا
رات کے گھر میں سورج جیسا جب فرزند ہوا


سادہ بے آمیزش جذبۂ پیر فقیر کرامت کا
جس کے اسم سے مایوسی کا زہر بھی قند ہوا


اول اول شور اٹھا سینے میں عام تمنا کا
بند فصیلوں کے گنبد میں جو دو چند ہوا


دکھ کو سمت شناسائی دی غم کے قربت داروں نے
دل دھارا دریا مل کر بہرہ مند ہوا


چلئے اپنے آپ سے چمٹے رہنا تو موقوف کیا
جب سے روز کے سمجھوتوں کا وہ پابند ہوا