رشتے

جیسے ہی اس کی آنکھ کھلی اس نے تکیہ کے دونوں جانب کچھ تلاش کیا۔ وہاں اخبار نہیں تھا۔ اس نے لحاف جو سینے تک سرک گیا تھا کھینچ کر ناک کے پاس تک کرلیا، آنکھیں بند کرلیں اور تھوڑی دیر تک اس فقیرکی آواز کا انتظار کرتے کرتے جس سے رات کی ڈیوٹی کرنے کے بعد اکثر بہت سویرے ہی اس کی آنکھ کھل جاتی تھی۔ نہ جانے کب سوگیا۔ دوبارہ آنکھ کھنے بپر اس نے اخبار پر نظر ڈالی ہی تھی اور ابھی سرخیاں ہی پڑھ رہاتھا کہ اس کی بیوی نے دروازہ سے جھانک کر کہا، ’’اٹھ گئے؟ میں نے ساری کھڑکیاں بند کرکے پردوں پر ایک ایک چادر ڈال دی تھی۔ جانتے ہیں کیا بجا ہے۔ ساڑھے نو، میں ابھی چائے لائی۔‘‘


اس نے چائے کا مگ ختم کرتے کرتے اخبار کا پہلا صفحہ تقریباً پڑھ ڈالا اور اندر کے صفحات کی اہم خبروں پر بھی نظر ڈال لی۔


’’کوئی خاص خبر؟‘‘ اس کی بیوی نے پوچھا۔


’’دو سیاسی لیڈروں کاانتقال، ایک ریل کا حادثہ، بس کھڈ میں گرنے سے نو آدمیوں کی موت۔‘‘ اس نے لحاف سے خود کو آزاد کرتے ہوئے کہا اور تقریباً اچھل کر مسہری کے سرہانے کی جانب سے فرش پر آ رہا۔ ایک چپل سامنے ہی تھی، دوسری شاید کسی کے پیر کی ٹھوکر سے ادھر ادھر ہوگئی تھی۔ اس نے جھک کر مسہری کے نیچے سے چپل نکالی۔ ہینگر پر سے گاؤن اتارکر اس میں جلدی جلدی ہاتھ ڈالے اور سپڑ سپڑ کرتا ہوا باتھ روم کی طرف چلا گیا۔


سراج کی اس بھاگم بھاگ میں اس کی بیوی کو یہ کہنے کا موقعہ ہی نہیں ملا کہ اس کاخالہ زاد بھائی، ہائے کیسا گبرو جوان تھا، شادی کے کچھ ہی دنوں کے بعد ریل کے ایک حادثہ میں مارا گیاتھا۔ سراج بھی شاید جانتا تھا کہ اس نے بیوی کو سانس بھی لینے کی مہلت دی تو وہ یہ کہانی ضرور دہرائے گی۔ جب بھی ریل کے کسی حادثہ کی خبر آتی وہ اپنے مرحوم خالہ زاد بھائی کا ذکر ضرور کرتی۔


باورچی خانہ میں ناشتہ تیار کرتی ہوئی بیوی پر ایک نظر ڈالتے ہوئے وہ کمرہ میں آگیا۔ اس کی بیوی نے کمرہ کی ساری کھڑکیاں کھول دی تھیں۔ پردے کھینچ کر کونوں میں کردیے تھے اور کمرہ میں دھوپ بھر گئی تھی۔ اس نے جھک کر باہر سڑک کی طرف دیکھا۔ بائیں جانب سڑک کے کنارے جہاں وہ فقیر بیٹھا تھا، اب خالی پڑی تھی۔ اس نے اطمینان کی سانس لی اور آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنے لگا۔ اتنے میں بیوی نے میز پر ناشتہ لگا دیا۔ تو اس نے اپنے آپ ہی کہا۔


’’ریل کے حادثہ میں کوئی موت نہیں ہوئی۔‘‘


’’اور دوسیاسی لیڈر؟‘‘


’’ان میں سے ایک تو لوک سبھا کا سابق ممبر تھا اور دوسرا سابق وزیر۔‘‘ اس نے کہا، ’’دونوں ہی کی موت کینسر سے ہوئی ہے۔۔۔ اس بیماری سے کوئی نہیں بچ پاتا۔‘‘


’’کون سی بیماری سے کوئی بچ جاتاہے۔۔۔‘‘ اس کی بیوی نے کہا تو اسے حلق میں نوالہ پھنستا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے جلدی سے چائے کا گھونٹ لیا اور موضوع بدل دیا۔


’’آنکھ تو بہت پہلے ہی کھل گئی تھی اس فقیر کی آواز سے، لیکن پھر نیند آگئی۔‘‘


’’پوری نیند سو لیا کیجیے۔۔۔ میں نے باہر کا دروازہ بھی کھول دیا تھا کہ اخبار والے کے زنجیر کھٹکھٹانے سے کہیں آپ کی نیند نہ کھل جائے۔‘‘


’’لیکن اس کی آواز ہے بڑی کڑک دار۔‘‘


وہ منہ اندھیرے اکبری گیٹ کی طرف سے آتا۔ اپنے تھیلے سے ٹاٹ کا ایک ٹکڑا نکال کر اس سے زمین صاف کرتاپھر دونوں ہاتھوں سے ٹاٹ کے اس ٹکڑے کو ہوا میں لہرا کر اس کی گرد جھاڑتا اور اسے زمین پر بچھا دیتا۔ پھر تھیلے سے ایک پرانا کپڑا نکال کر جس کا رنگ شاید کبھی نیلا رہاہوگا، اس ٹاٹ پر بچھاتا۔ تھیلا کندھے پر سے اتار کر زمین پر رکھتا، اس میں سے ایک کٹورا نکال کر اپنے سامنے سجاتا اور آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتا۔ پیٹھ سے آگے کی طرف کندھوں پر پڑا لال انگوچھا دونوں کونوں سے پکڑ کر دھیرے دھیرے آگے کی طرف کھینچ کر برابر کرتا۔ کٹورے کو ایک بار پھر ادھر ادھر کھسکاتا۔ ایک بار پھر ٹاٹ کے کونوں اور اس پر بچھے ہوئے کپڑے پر ہاتھ پھیرتا کہ اس پر ایک بھی شکن نہ رہ جائے اور آواز لگاتا۔


’’اللہ کے نام پر۔۔۔‘‘


اس مکان میں آنے کے بعد پہلی صبح بہت سویرے اس کی آنکھ اسی آواز سے کھلی تھی اوریہ ایک ناگوار تجربہ تھا۔ تھوڑی دیر تک سونے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد کچھ تو اس ناگوار تجربہ کااثر زائل کرنے اور کچھ نئے مکان کے جغرافیہ سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے وہ زینہ سے اترکر سڑک کے کنارے والی دوکان کے چبوترے پر آکھڑا ہوا تھا۔


نیا مکان بہت اچھا تھا۔ صبح کی پہلی کرن دوسرے سارے مکانوں کو چھوڑ کر سب سے پہلے وہیں آتی تھی، ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اسی مکان سے ہوکر ساری دنیا تو نہیں کم سے کم سارے شہر میں ضرور پھیلتا تھا۔ دوبڑے بڑے کمرے، ایک برآمدہ، کشادہ آنگن، دومیاں بیوی، ایک بچے کے لیے کافی بلکہ کافی سے بھی زائد تھے۔ اس نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے فقیر کی طرف کچھ غصہ، کچھ نفرت، کچھ حقارت اور کچھ اس خواہش کے ساتھ دیکھا کہ اگر اس کی آواز جڑی نہ ہوتی تو مکان اور بھی اچھا ہوتا۔


اس کے سامنے پھیلی ہوئی سڑک جو ایک طرف بڑے بڑے پارکوں، دریا، تاریخی عمارتوں اور نیم آباد بستیوں سے اور دوسری طرف گنجان آبادیوں سے جڑی تھی، اب جاگ گئی تھی۔ صبح سیر کرکے واپس آنے والوں میں ایک شخص نے اس کے کٹورے میں سکہ ڈالاتو اس نے پنجوں کے بل کھڑے ہوکر کٹورے کے اندر جھانکنے کی کوشش کی۔ کٹورے کے اندر کئی سکے تھے۔ اسی لمحے فقیر نے کٹورا اٹھایا، ادھر ادھر دیکھا اور کسی کو آس پاس نہ پاکر سارے پیسے ہاتھ میں الٹ کر جھولے میں ڈال لیے اورآواز لگائی، ’’اللہ کے نام پر۔‘‘


وہ مسکرایا، لیکن اس کی مسکراہٹ میں کچھ کچھ غصہ بھی شامل تھا۔ وہ سڑک سے واپس آیا تو اس کی بیوی انتظار کر رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی بولی، ’’آپ کو بستر پر نہ پاکر میں تو پریشان ہوگئی تھی، پھر کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو آپ سڑک کے کنارے کھڑے تھے۔ جلدی سے دانت صاف کرلیجیے، چائے تیار ہے۔‘‘


غسل خانے جاتے ہوئے اسے جانے کیا سوجھی کہ اس نے باتھ روم کے فلش کی زنجیر کھینچ دی۔ پانی چھل چھل کرتا بہنے لگا اور وہ اس ڈوبتی ہوئی آواز کو سننے لگا۔ وہ جس مکان سے یہاں منتقل ہوا تھا اس میں فلش نہیں تھا۔


کیتی سے چائے انڈیلتے ہوئے اس کی بیوی نے کہا، ’’ابھی تو جلدی میں سامان یوں ہی رکھ دیا ہے۔ جب قاعدے سے ساری چیزیں سجاؤں گی تو مکان بہت اچھا لگے گا۔‘‘


’’ہوں۔‘‘ اس نے کہا اور کمرہ پر پسندیدگی کی نظر ڈالی۔ کمرہ میں کئی الماریاں تھیں۔ سڑک کی جانب کھلنے والی چار بڑی بڑی کھڑکیاں اور دوسرے کمرہ سے ملانے والا بڑا سا دروازہ اور خاصی اونچی چھت۔ وہ چھت کی بلندی آنکھوں ہی آنکھوں میں ناپنے کے لیے نظریں اوپر اٹھاکر کچھ کہنے ہی جارہا تھا کہ فقیر کی آواز، ’’اللہ کے نام پر‘‘ اور کٹورے میں سکہ کے گرنے کی آواز ایک ساتھ ہی سنائی دیں۔ شاید کسی نے خاصی اونچائی سے سکہ اس کے کٹورے میں ڈالا تھا۔


تین چار دنوں میں ان دونوں نے مل کر سارا سامان قرینے سے سجا دیا۔ ویسے ایسا کوئی زیادہ سامان تھا بھی نہیں۔ دو مسہریاں، ایک دوچھوٹے بڑے پلنگ، کپڑوں کے چند بکس، معمولی سا فرنیچر اور دوچار کتابیں۔ بائیں جانب کی کھڑکی کے پاس کا کونہ اس کی بیوی نے، وہ آرام کرسی ڈالنے کے لیے جو سراج کے والد کی یادگار تھی، منتخب کی اور کہا، ’’یہاں کھڑکی پر گلاب کا ایک گملا رکھ دو ں گی۔ آپ صبح اسی کرسی پر ٹانگیں پھیلاکر آرام سے اخبار پڑھا کیجیے گا۔ میں اُدھر۔۔۔‘‘ دوسری طرف اشارہ کیا، ’’چھوٹی تپائی رکھ دوں گی۔ آپ کی سگریٹ کی ڈبیا، دیا سلائی، ایش ٹرے، اسی پر رکھی رہیں گے۔ چائے پیتے وقت پیالی بھی اسی پر رکھ لیا کیجیے گا۔ ورنہ ہاتھ میں لیے رہتے ہیں اور جلدی سے چائے ختم کرنے کے چکر میں منہ جلالیتے ہیں۔‘‘


ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں ریحانہ کی یہ دلچسپی اسے پسند آئی۔ اس نے کھڑکی کے قریب جاکر باہر جھانکا، وہاں کوئی نہ تھا اور جس جگہ وہ فقیر بیٹھا تھا، وہاں ایک موٹر کھڑی تھی لیکن اس کی کڑک دار آواز، ’’اللہ کے نام پر‘‘ جیسے اس کے کانوں سے ٹکرائی اور اس نے کہا، ’’یہ جگہ تو بالکل سامنے ہی ہے۔ اس کی آواز سیدھی یہاں آئے گی۔ آرام کرسی ’’وہاں‘‘ اس نے کمرے کے دوسرے کنارے کی آخری کھڑکی کی طرف اشارہ کیا، اس جگہ ڈال دی جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔‘‘


کرسی اس کونے کے بجائے اس کونے میں ڈالی گئی تو مسہریوں، بڑی میز، ریڈیو، سنگار میز غرض ہر چیز کی جگہ بدل گئی اور کمرہ بالکل دوسرا ہی لگنے لگا۔ چند دنوں بعد دونوں نے ایک نہایت خوبصورت ڈائننگ سیٹ بھی خرید لیا جسے دوسرے کمرہ میں جس میں ایک تخت، ایک معمولی سا صوفہ سیٹ، سینٹر ٹیبل، ایک میز، ایک الماری پہلے ہی سے رکھی تھیں، ان دونوں نے جگہ جگہ رکھ کر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ اس کے لیے کون سی جگہ مناسب رہے گی۔ اس میں پورا دن لگ گیا۔


اس نے کئی بار کسی نہ کسی بہانے اس کمرہ میں جاکر چیزوں کی نئی ترتیب اور خاص طور پر ڈائننگ ٹیبل کامعائنہ کیا۔ پھر شام ہوئی تو دن بھر کی تکان کے سبب جلدی سے کھانا کھا کر وہ دونوں لیٹ گئے۔ ریڈیو سے خبریں ختم ہوئیں تو وہ بستر سے اٹھا، کھڑکی پر کھڑے ہوکر اس نے دوچار لمبے لمبے سانس لیے۔ اوپر برآمدہ میں آکر دھیرے دھیرے دوسرے کمرہ کا دروازہ کھولا، چپکے سے بجلی جلائی، جیسے اسے ڈر ہو کہ اس کمرہ میں بجلی جلنے کاکسی کو علم ہوگیا تو وہ اس کے دل کا چور پکڑلے گا۔ چیزوں کی ترتیب پر فخریہ نظر ڈالی اور بجلی بجھاتے بجھاتے ڈائننگ ٹیبل پر جس کی سن مائکا روشنی میں اور بھی چمک رہی تھی، دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرا اور سن مائکا کے پھولوں کی خوشبو اور رنگوں کا احساس اپنی ناک اور آنکھوں میں لیے دوسرے کمرہ میں آگیا۔


’’کہاں گئے تھے؟‘‘


’’کہیں نہیں۔‘‘


ریحانہ نے کچھ اور نہ پوچھا۔ اگروہ کچھ اور پوچھتی تو اسے کم سے کم اس بات کا یقین تو دلاتا ہی کہ وہ ڈائننگ ٹیبل دیکھنے اس کمرہ میں نہیں گیا تھا۔ کوئی بھی بہانہ کردیتا۔ لیکن جب اس نے پوچھاہی نہیں تو وہ اپنی صفائی کیسے دے۔


’’کیا سوگئے؟‘‘ تھوڑی دیر بعد ریحانہ نے آہستہ سے پوچھا۔


’’نہیں تو۔‘‘


’’اپنے دوستوں کو کب بلائیے گا؟‘‘


’’جب کہو۔‘‘


’’آپ کا آف پرسوں ہے نا؟‘‘


’’ہاں تو بلالیجیے۔۔۔ رات کے کھانے پر۔‘‘


اس کے بعد دونوں بہت دیر تک دعوت کے انتظام کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ پہلے تو یہ طے کیا گیا کہ کس کس کو بلایا جائے۔ اس کے دوستوں میں دو تین شادی شدہ تھے۔ چنانچہ ان کی بیویوں کو بھی مدعو کرنے کافیصلہ کیا گیا۔


’’تم اپنی سہیلیوں کو بھی کیوں نہیں بلا لیتیں؟ بار بار پریشان ہونے سے فائدہ۔‘‘ اس نے کہا تو اس کی بیوی نے اپنی قریبی سہیلیوں کے نام گنائے۔ جب چار سہیلیوں کے نام گناکر اس نے کہا ’بس‘ تو سراج نے کہا، ’’کوئی رہ تو نہیں گیا؟‘‘


’’ایساتو کوئی رہ نہیں گیا جسے بلانا ضروری ہو۔‘‘


’’اور شیلا؟‘‘


’’ارے اس کانام تو میں بھول ہی گئی تھی۔ لیکن کیا بات ہے آپ شیلا میں بہت دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ کیا پسند آگئی ہے؟‘‘


ایک زوردار قہقہہ بلند ہوا جس میں تھوڑی دیر بعد وہ بھی شامل ہوگئی۔ اسی وقت نہایت تیز ہارن بجاتا ہوا ایک ٹرک سڑک پر سے گزرا تو اس کی ہلکی ہلکی روشنی کمرہ میں پھیل گئی اور دونوں کی نظر شاید ایک ہی ساتھ گھڑی پر پڑی۔ پونے بارہ بجے تھے۔


’’اچھا اب سوجائیں۔ پونے بارہ بج گئے، صبح سویرے ہی۔۔۔‘‘ اس نے جملہ مکمل نہیں کیا لیکن دونوں ہی کو علم تھا کہ مکمل ہونے پر اس جملہ کا ہدف کون بنے گا۔


ادریس بے حد جوش میں تھا۔ اپنی بات منوانے کے لیے اس نے اپنی آواز بھی اونچی کرلی تھی، ’’جی نہیں، یہ غلط ہے۔‘‘ اس نے شیکھر کی دلیل کاٹی، ’’ہم لوگ بنیادی طور پر کاہل ہیں، آٹھ بجا نہیں کہ جماہیاں لینا شروع کردیں۔ صبح دیر سے سوکر اٹھے۔ ذرا سا کام کیا اور تھک کر پلنگ پر دراز ہوگئے۔ یورپ کے لوگوں کو دیکھا ہے کہ کس طرح کام کرتے ہیں۔‘‘


’’دیکھاہے۔‘‘ شیکھر نے جو ایک بار اپنے بھائی کی دعوت پر لندن ہو آیا تھا کہا، ’’ہفتہ میں دو دن۔۔۔ سنیچر اتوار۔۔۔ تو کام کی طرف پلٹ کر دیکھتے بھی نہیں۔‘‘


’’اور یہ نہیں دیکھا کہ پانچ دن کس طرح کام کرتے ہیں۔‘‘


شیکھر جواب کی تلاش ہی میں تھا کہ بلراج نے اس کی مشکل آسان کردی۔


’’میں نے ہسٹری پڑھی ہے۔ میں جانتا ہوں یہاں کے عام لوگ کبھی خوشحال نہیں رہے۔ اور وجہ وہی ہے جو میں ہمیشہ بتاتا ہوں۔۔۔ گرمیوں میں بے حد گرمی، جاڑوں میں بے حد جاڑا، اور برسات میں بے حد بارش۔۔۔ کوئی کام کرے بھی تو کب کرے۔‘‘ اس نے کہا اور شیکھر کے چہرہ پر پھیلتی ہوئی مسکراہٹ دیکھ کر بولا، ’’جناب یہ بات میں نہایت سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔۔۔ ہمارے ملک کے قصے کہانیوں میں فقیروں کے جتنے واقعات اور کیریکٹر ملتے ہیں، دنیا کے کسی ملک کی کہانیوں میں نہیں ملیں گے۔‘‘


’’اب آئے ہیں آپ مسئلہ کے اصل پہلو پر۔‘‘ عثمان نے جو اب تک ساری بحث میں خاموش بیٹھا رہا تھا کہا، ’’ہمارے قصے کہانیوں میں فقیروں کی بھرمار اس بات کی علامت ہے کہ یہاں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خود محنت کیے بغیر، دوسروں کی محنت کے بل بوتے پر زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ اصل میں یہ رویہ ذمہ دار ہے ہماری غربت کا۔‘‘


ملک کی ترقی کی دھیمی رفتار کی بحث جب فقیروں پر آکر رکتی ہوئی معلوم ہوئی تو میاں بیوی نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ ان دونوں کے درمیان ایک کرخت آواز ہوا میں معلق تھی۔ مہمانوں کو رخصت کرکے جب وہ دونوں اپنے کمرہ میں دعوت کی کامیابی کاجائزہ لینے بیٹھے تو سراج نے کہا، ’’بھائی تم تو بہت اچھا کھانا پکانے لگی ہو۔‘‘


’’عثمان تو بہت تعریف کر رہے تھے۔‘‘


’’سب کو پسند آیا۔‘‘ سراج نے کہا۔


’’شام بڑی دلچسپ گزری۔ لیکن یہ آپ لوگ ہر چیز کو اتنی سنجیدگی سے کیوں لیتے ہیں؟‘‘


’’کیوں، کیا ہوا؟‘‘


’’ارے آپ کی بحث سے کیا ملک کی غربت دور ہو جائے گی۔۔۔ جانتے ہیں آپ لوگوں نے کتنی دیر تک بحث کی ہے۔ پورے دوگھنٹے اور اتنے زور زور سے کہ محلہ والے سوچ رہے ہوں گے کہ لڑائی ہو رہی ہے۔‘‘


’’ہم لوگ بحث ہی تو کرتے ہیں۔‘‘ وہ سراج کی بات سمجھی نہیں اور بولی، ’’لیکن کوئی حد بھی ہوتی ہے اور آخر میں تو میں ڈر سی گئی تھی۔ میں نے سوچا کہ ان کو معلوم تو نہیں ہوگیا ہے۔‘‘


سراج کچھ نہ بولا۔


’’بس وہ نہ ہوتا تو یہ مکان بالکل بے عیب تھا۔‘‘


’’میں نے تو اسی وقت کہا تھا کہ سامنے والا فلیٹ لے لو۔ اس میں ایک کمرہ بھی زیادہ تھا اور سڑک سے ذرا فاصلہ پر بھی تھا۔ کرایہ بیس ہی روپے تو زیادہ تھا۔‘‘


’’لیکن مجھے کیا معلوم تھا۔‘‘ وہ شاید کچھ اور کہتی لیکن اسی وقت نسرین بستر میں کنمنائی اور وہ اسے تھپکی دے کر سلانے لگی۔ زینہ بے حد گرم تھا۔ اس نے دوسری بار زور سے دروازہ بھڑبھڑایا تو ’’آتی ہوں‘‘ کہتی ہوئی وہ بھاگی اور دروازہ کھولا تو سراج کو پسینہ میں شرابور کھڑا پایا اور بے حد نڈھال بھی۔


’’کیا دروازہ کھولنے میں زیادہ دیر لگ گئی، ایک ہی بار تو آپ نے کھٹکھٹایا تھا۔‘‘


’’دوبار۔‘‘


کمرہ میں داخل ہوتے ہی ریحانہ نے پنکھے کی رفتار تیز کردی۔ پسینہ سے بھیگے ہوئے جسم پر گرم ہوا بھی اچھی لگتی لیکن پسینہ خشک ہوگیا تو اسے پنکھے سے لو نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے منہ پر پانی کے دوچھینٹے مارے اور چائے کا انتظار کرنے لگا۔


’’بے حد گرمی ہے۔ آج آپ کو دیر بھی ہوگئی۔‘‘


’’ہوں۔‘‘


’’کیا بہت کام تھا دفتر میں؟‘‘


’’نہیں تو۔۔۔ بس میں ایک حادثہ ہوگیا۔‘‘


’’کیا ہوا۔۔۔ کوئی بس کے نیچے آگیا کیا۔۔۔ مرا تو نہیں؟‘‘


’’مرگیا۔‘‘


’’ہائے کون تھا وہ؟‘‘


’’بس کے نیچے آکر نہیں۔ بس میں ہی۔‘‘


’’بس میں؟‘‘


’’سٹی اسٹیشن سے بس چلی ہی تھی کہ بڈھا سا آدمی جو اپنے سامنے والی سیٹ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے کھڑا تھا، یوں گرپڑا جیسے دیوار کے سہارے کھڑی کی گئی سوکھی لکڑی ہوا کے ایک جھونکے سے گرجائے۔ بس فوراً روک دی گئی۔ کنڈکٹر نے کہا جسے اترنا ہے اترجائے، بس سیدھے کوتوالی جائے گی۔ کسی نے کہا، راستہ میں جو اسٹاپ پڑیں ان پر مسافروں کو اتارتے چلنا۔ ایک صاحب بولے، مجھے جلدی ہے۔ شام کی گاڑی سے پلیو بھیت جانا ہے۔ پہلے بس کو ٹھاکر گنج کے اڈے تک لے چلو، وہاں سے تھانے چلے جانا۔ غرض لوگ اپنی اپنی کہہ رہے تھے کہ ڈرائیور نے ایک دم بس اسٹارٹ کرکے سیدھے کوتوالی میں جاکر کھڑی کردی۔ وہ تو میں کھسک آیا ورنہ بیان گواہی کے چکر میں پھنس جاتاتو اور دیر لگتی۔‘‘


’’کچھ پتہ چلا کون تھا؟‘‘


’’ٹھیک سے معلوم نہ ہوسکا۔ میلے سے کرتے کے نیچے صدری میں سو سو کے کئی نوٹ تھے۔ اوپر کی جیب میں کچھ روپے اور ریزگاری تھی۔‘‘


’’معلوم نہیں کون تھا بے چارہ، ہوا کیا تھا اسے؟‘‘


’’شاید فقیر تھا۔‘‘ اس نے سوال کے دوسرے حصہ کو نظرانداز کردیا۔


’’فقیر تھا! یہ کیسے معلوم ہوا؟‘‘


’’بس اندازہ ہے۔‘‘


اسی لمحہ وہ کرسی پر سے اٹھی اور یہ دیکھنے کے لیے کہ باہر سڑک پر اب بھی لو کے تھپیڑے چل رہے ہیں یا نہیں، اس نے کھڑکی تھوڑی سی کھول کر باہر جھانکنے کی کوشش کی تو سراج بولا، ’’وہاں کیا دیکھ رہی ہو۔ وہ ہم لوگوں والافقیر نہیں تھا۔۔۔ دیکھ لینا کل صبح پھر۔۔۔‘‘


’’مجھے تو اب سچ مچ بڑا غصہ آتا ہے۔‘‘ ریحانہ نے کھڑکی بند کی۔ ’’کل ترکاری والے نے اس کی چادرپر ترکاری رکھتے ہوئے جب کہا کہ بابا اب ہم اچھے ہوگئے ہیں اور کل سے ٹھیلا لگائیں گے تو معلوم ہے اس نے کیا کہا تھا۔‘‘ اس نے سراج سے پوچھا لیکن جواب کا انتظار کیے بغیر بولی، ’’اس نے کہا، میں نے دعا کی تھی۔‘‘ جیسے ترکاری والے بابا اسی کی دعا سے تو اچھے ہوئے ہوں۔ ایسے ہی پہنچے ہوئے ہوتے تو سڑک کے کنارے بیٹھ کر کر ہر آنے جانے والے کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاتے۔‘‘ دونوں کے دل اب بس والے واقعہ پر افسوس کے بجائے نفرت اور غصے سے بھرے تھے۔ یہ بادل شایدپوری رات کی نیند کے بعد ہی چھنٹے ہوں گے۔


اسے سنیما دیکھنے سے کوئی خاص دل چسپی نہ تھی۔ اس لیے ایک دن جب دفتر سے واپسی پر اس نے جیب سے دو ٹکٹ نکال کر میز پر رکھ دیے تو ریحانہ کو بے حد حیرت ہوئی۔


’’آج کدھر سے چاندنکلا ہے؟‘‘ اس نے کہا۔


’’دفتر میں سب تعریف کر رہے تھے تو میں نے بھی ٹکٹ خرید لیے۔‘‘


’’کس شو کے ہیں؟‘‘


’’نو سے بارہ۔۔۔ سوچا شام کے شو کالوں گا تو بھاگم بھاگ دفتر سے واپس آنا پڑے گا۔ اب تم بھی آرام سے تیار ہو جاؤگی اور میں بھی ذرا سستالوں گا۔‘‘


وہ ذرا سی دیر میں چائے بناکر لائی اور دونوں چائے پینے لگے۔ نسرین پاس کے کسی گھر میں بچوں کے ساتھ کھیلنے گئی تھی۔ تھوڑی دیر تک وہ دونوں اس فلم کے ایکٹروں، کہانی کار اور پروڈیوسر کے بارے میں باتیں کرتے رہے، باتیں کرتے کرتے اسے اپنی سیاسی زندگی کے ایک ساتھی کی یاد آگئی جو فلموں میں ایک بار چمک دکھاکر جانے کہاں غائب ہوگیا تھا۔


’’تم نے پرنیتا دیکھی ہے نا؟‘‘


’’آپ اپنے دوست تنویر کا ذکر کر رہے ہیں؟‘‘ اسے یاد آیا کہ وہ ریحانہ سے اس فلم کا ذکر کئی بار کر چکا ہے۔


’’ہاں، بڑی عمدہ ایکٹنگ کی تھی اس نے۔ چھوٹا سا رول تھا، فقیر کالیکن یاد رہ جاتا ہے۔‘‘ لفظ فقیر پر ریحانہ کو جیسے ایک دم کوئی بات یاد آگئی۔ بولی، ’’کچھ سنا آپ نے۔ وہ فقیر جو سامنے بیٹھتا تھا، وہ پرسوں مرگیا۔‘‘


’’پرسوں۔‘‘


’’ہاں پرسوں۔۔۔ بوا نے آج ہی بتایا۔ انہی کے محلے میں تو رہتا تھا۔‘‘


’’لیکن میں نے تو آج ہی صبح اس کی آواز سنی تھی۔‘‘


’’آج صبح۔۔۔ وہ تو ساتھ آٹھ دن سے بہت بیمار تھا۔ اس درمیان آیا بھی نہیں۔ آپ کو دھوکا ہوا ہوگا۔‘‘


سراج کچھ نہ بولا۔ دونوں گردن جھکائے اپنی اپنی پیالیوں کو دیکھتے رہے۔ دونوں نے باری باری اس خاموشی اور سناٹے کو اپنے اپنے طور پر توڑنے کی کوشش کی۔ لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ سراج نے پیالی کے نچلے حصے پر یہ معلوم کرنے کے لیے ہاتھ پھیرا کہ چائے گرم ہے یا نہیں۔ لیکن کوئی اندازہ نہ کرسکا تو اس نے پیالی منہ سے لگائی۔ چائے شاید بالکل ٹھنڈی ہوچکی تھی۔ اس نے پیالی میز پر رکھ دی اور کچھ کہے بغیر دوسرے کمرہ میں جاکر کوئی رسالہ پڑھنے لگا۔


کافی دیر کے بعد شاید سگریٹ کی ڈبیا کی تلاش میں وہ سونے کے کمرے میں گیا تو ریحانہ پرانے کپڑوں کی مرمت کر رہی تھی۔ اس نے گھڑی دیکھی۔ ساڑھے نو بجا تھا۔