عیدگاہ

’’تب ایک بڑی دل چسپ بات ہوئی، حامد کے چمٹے سے بھی عجیب۔ بچے حامد نےتو بوڑھے حامد کا پارٹ ادا کیا تھا۔ بوڑھی امینہ بچی امینہ بن گئی تھی، وہ رونے لگی۔ دامن پھیلاکر حامد کو دعائیں دیتی جاتی تھی اور آنکھوں سےآنسو گراتی جاتی تھی۔ حامد اس کا راز کیا سمجھتا۔‘‘


جوراز حامد کو معلوم تھا وہ نہ بوڑھی امینہ کو معلوم تھا اور نہ بچی امینہ کو۔ اسے کچھ وہی جانتا تھا۔ اپنے چمٹے سے، خاکی وردی پہنے، لال پگڑی باندھے اور کندھے پر بندوق رکھے سپاہی، جھکی ہوئی کمر پر مشک رکھے بھشتی، کالے چغے کے نیچے سفید اچکن اور اچکن کی جیب میں سنہری زنجیر ڈالے وکیل اور چمڑے کی جھلی منڈھی دھپ دھپ کرنے والی خنجری کو اس نے ہرا تو دیا تھا اور اس پر خوش بھی تھا لیکن کچھ کچھ ڈر بھی رہا تھا۔


وہ کبھی اپنے چمٹے کو ایک ہاتھ میں لیتا، کبھی دوسرے ہاتھ میں۔ کبھی اسے اوپر سے پکڑ کر زمین پر کھٹ کھٹ کرتا۔ جب وہ اسے عصا کے طور پر استعمال کرتا تو اس کے قدم زمین پر دھیرےدھیرے پڑتے جیسے بوڑھا ہوگیا ہو، جب وہ اسے کندھے پر رکھ کر بندوق کا مزہ لیتا تو اس کے سارے بدن میں تیزی، چستی بھرجاتی اور زمین پر غرور سے بھد بھد پیر مارتا آگے بڑھنے لگتا۔


خوشی اور خوف کے جذبوں کے علاوہ اس کے سر میں ایک سودا بھی سمایا تھا کہ کس طرح جلدی سے جلدی گھر پہنچ کر دست پناہ بوڑھی دادی کودےدے۔ عیدگاہ میں وکیل صاحب، بھشتی، سپاہی، خنجری اور ان کے مالکوں سے اسے اپنی بحث یاد تھی۔ محمود کے دیے ہوئے کیلے بھی یاد تھے۔ لیکن اس کے بعد وہ کب ان کے گھیرے سے الگ ہوگیا، یہ اسے ٹھیک سے یاد نہ تھا۔


ہوا یہ تھا کہ اس نے کچی سڑک چھوڑ کر ایک پگڈنڈی پکڑلی تھی۔ کھیتوں، کھلیانوں، کانٹے بھرے راستوں اور کھابڑ کھوبڑ زمین سے گزرتے ہوئےاسے کئی بار ڈر لگا تھا کہ کہیں وہ راستہ بھول تو نہیں گیا ہے لیکن اسے کچھ کچھ اندازہ تو تھا ہی۔۔۔ اورجب اس نے دور سے پیپل کادرخت دیکھا اور پھر اس کے تنے میں رکھی ہوئی شیوجی کی مورتی اور کچھ سوکھے اور کچھ تازہ پھول تو اسے یقین ہوگیا کہ وہ اب گاؤں پہنچا ہی چاہتا ہے۔ اسے یہ بھی یقین تھا کہ وہ سب سے پہلے گاؤں واپس پہنچے گا۔


گاؤں واپس آنے کی خوشی میں جہاں اس کا دل دھڑک رہا تھا وہاں اس دھڑکن میں کچھ کچھ ڈر بھی شامل تھا۔ اسے اس وقت یہ معلوم نہ تھا کہ وکیل صاحب کی لاش گھورے پر پھینک دی جائے گی۔ بھشتی میاں تھوڑی دیر میں ہی پرلوک سدھار جائیں گے اور سپاہی میاں اپنی بندوق لیے زمین پر آرہیں گے اور ان کی ٹانگ ایسی ٹوٹےگی کہ گولر کے دودھ سے بھی نہیں جڑپائے گی لیکن وہ یہ ضرور جانتا تھا کہ ان سب کا حشر ہونا یہی ہے اور جب ان کایہ حشر ہوگا تو وہ چاہے جہاں بھی ہو، چاہے جیسا بھی ہو، سب اس کے چمٹے کو الزام ضرور دیں گے۔


مفتوحوں سے وقار اور خوشامد کا خراج وصول کرنے کے باوجود ڈر تھا کہ اس کا ساتھ نہیں چھوڑ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ انہوں نے ہار مان تو لی ہے لیکن وہ سب بھشتی، وکیل، خنجری، سپاہی ایک نہ ایک دن اس کے چمٹے کو نیچا دکھانے کی کوشش ضرور کریں گے۔ اس نے دو ایک بار پلٹ کر دیکھا بھی تھا کہ کہیں یہ سب اس کاپیچھا تو نہیں کر رہے ہیں۔ حامد نے یہ ڈر اپنی دادی سے چھپا لیا۔ لیکن جب امینہ رونے لگی تو وہ بھی رونے لگا۔ جس طرح حامد اس کے آنسوؤں کے راز کو نہ سمجھ سکا تھا اسی طرح امینہ بھی اس کے آنسوؤں کے راز کو نہ جان سکی تھی۔


لیکن اس نے حامد کو چمٹا لیا اور چٹاچٹ اس کی پیشانی کے بوسے لینے لگی۔


حامد کے عیدگاہ جانے کے بعد امینہ نےایمان کی طرح بچائے پیسوں میں سے جن میں سے اس نے تھوڑے سے حامد کو دے دیے تھے، آٹھ آنے کی سویاں اور چالیس پیسے کادودھ خرید لیا۔ تھوڑی سی کھانڈ پہلے ہی سے ڈبے میں رکھی ہوئی تھی اور اس نے سوئیاں پکالیں۔ صبح سویرے اس نے گھر میں جھاڑو بہارو کرکے چولہا بھی پوت دیا تھا۔ کچھ تو تازی پکی سویوں کا سوندھا پن اور کچھ لپے پتے چولہے کی خوشبو، حامد کی بھوک ایک دم جاگ اٹھی۔


اس نے امینہ سے کہا، ’’دادی آج تم نے سوئیاں پکائی ہیں؟‘‘


’’ہاں میرے پوت۔‘‘ دادی نے کہا، ’’میں ابھی دیتی ہوں۔۔۔‘‘ اور جلدی سے پتیلی چولہے کے اوپر سے اتار کر زمین پررکھ دی۔ برتنوں کی ٹوکری پھوس کی چھت میں میں دھنی سے لٹکی تھی، اس نے ایک ہاتھ سے گھٹنے پر زور دےکر اٹھانا چاہا تو پیر ڈگمگائے۔ لیکن لمبا سا چمٹا ہاتھ میں تھا اسی کو ٹکادیا اور کھڑی ہوگئی۔ ٹوکری میں سے ایک پرانی کٹوری جسے مانجھ مانجھ کر اس نے خوب چمکادیا تھانکالی، اور اس میں بہت سی سوئیاں انڈیل دیں۔


’’دادی یہ تو بڑے مزے کی ہے۔‘‘ حامد نےکٹوری کی عزت برقراررکھنے والے چمچے سے سوئیاں کھاتے ہوئے کہا۔


’’اور لے لینا بیٹے۔‘‘ دادی نے کہا اور خوش ہوگئی کہ اس کی محنت سوارت ہوگئی۔


’’لیکن تم تو کھا نہیں رہی ہو۔‘‘ حامد نے چمچہ کٹوری میں رکھتے ہوئے کہا۔


’’تم کھالو۔‘‘ امینہ نے کٹوری حامد کے اور قریب کردی۔


’’نہیں دادی، میں نہیں کھاؤں گا، جب تک تم نہیں کھاؤگی۔۔۔‘‘ حامد نے ضد کی۔۔۔ آخر بوڑھی امینہ نے حامد کی ضد کے آگے ہار مان کر ایک دوسری کٹوری میں تھوڑی سی سوئیں انڈیل لیں۔ لیکن گھر میں چمچہ ایک ہی تھا۔ وہ کھاتی کیسے؟


حامد امینہ کو سوئیاں انڈیلتے دیکھ کر ہی خوش ہوگیا تھا اور اس نے دوبارہ سوئیاں کھانا شروع کردی تھی۔ اس نےدادی کو کٹوری سامنے رکھے خاموش بیٹھے دیکھا تو سمجھ گیا کہ چمچہ تو ایک ہی ہے دادی کھائے گی کیسے، اس نے کہا، ’’ایک چمچہ سوئیں میں کھاؤں گا ایک تمہیں کھلاؤں گا۔‘‘


’’میرے لال۔۔۔‘‘ امینہ کی آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے۔ابھی حامد چمچہ میں سوئیں لے کر امینہ کی طرف بڑھا ہی رہا تھا کہ دروازہ اپنے آپ پاٹوں پاٹ کھل گیا اور خنجری کی دھپ دھپ کی آواز فضا میں گونجی۔ خنجری کے دو ہاتھ بھی تھے اور دوپاؤں بھی اور وہ دھپ دھپ کرتی ان دونوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس کے پیچھے بھشتی میاں تھے، کمر جھکی ہوئی اور اس پر پانی سے بھری مشک لادے ہوئے۔ ان دونوں کے پیچھے وکیل صاحب تھے۔ شیروانی پر کالا کوٹ ڈالے۔ اور سب سے آخر میں سپاہی تھا، کندھے پر بندوق دھرے۔ یہ چاروں دادی پوتے کے پاس آکر کھڑے ہوگئے۔ خنجری نے ایک بار پھر دھپ دھپ کی تو وکیل صاحب نے ایک قدم آگے بڑھ کر امینہ سے کہا، ’’تمہارے حامد نے مجھے قتل کرکے میری لاش گھورے پر پھینک دی تھی۔‘‘


’’اور میری ٹانگ توڑدی اور وردی پھاڑ ڈالی۔۔۔‘‘ سپاہی بولا۔ اس نے اپنے الزام کے ثبوت میں ہوا میں ایک فائر داغا تو حامد اور اس کی دادی ڈر کے مارے کانپنے لگے۔ خنجری نے ایک بار پھر دھپ دھپ کی۔


’’حامد نے میرا پیٹ پھاڑ ڈالا۔‘‘


’’میں نے کچھ نہیں کیا وکیل صاحب۔۔۔‘‘ حامد نے ڈرتے ڈرتے کہا۔


’’نہیں، تم نے ہم کو قتل کیا ہے۔‘‘ وکیل صاحب نے کہااور خنجری نے پھر دھپ دھپ کی۔


’’حامد نے ہم سب کو قتل کیا ہے۔‘‘


اور یہی جملہ ساری خنجریوں نےدور دور تک دہرایا، ’’حامد نےہم سب کو قتل کیا ہے۔‘‘


امینہ نے رو رو کر اپنے پوتے کی بے گناہی کی قسمیں کھائیں تو وکیل صاحب نے اپنی بساط بچھائی۔


’’کیوں حامد! کیا تونے یہ نہیں کہا تھا کہ چاہوں تو اپنے چمٹے سے چھرے کا کام بھی لے سکتا ہوں؟‘‘


’’ہاں میں نے کہاتھا۔‘‘ حامد نے جو دادی کی ٹانگوں کے سہارے کھڑے ہونےکے باوجود تھر تھر کانپ رہا تھا۔ جواب دیا۔وکیل صاحب خاموش ہوگئے۔ اب انہوں نے اگلا پانسہ پھینکا، ’’کیا تونے نہیں کہا تھا کہ میرا دست پناہ چاہے تو خنجری کا پیٹ پھاڑ ڈالے۔‘‘


’’ہاں! یہ بھی میں نے کہا تھا۔‘‘ یہ جواب سن کر وکیل صاحب کی بانچھیں کھل گئیں۔ انہوں نےفوراً دوسرا سوال داغ دیا، ’’کیا تونے سپاہی کو یہ کہہ کر دھمکی نہیں دی تھی‘‘ کہ ’’یہ بے چارے رستم ہند کو پکڑیں گے۔۔۔؟ اچھا لاؤ ابھی مقابلہ ہوجائے۔ اس کی صورت دیکھتے ہی بچہ کی ماں مرجائے گی۔ پکڑیں گے کیا بے چارے؟‘‘


’’ہاں! میں نے یہ بھی کہا تھا۔۔۔‘‘ حامد جھوٹ کیوں بولتا ۔اسے اندازہ بھی نہ تھاکہ وہ وکیل صاحب کے جال میں پھنستا جارہا ہے۔ حامد کی زبان سے جرم کا اقرار سن کر وکیل صاحب کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ اب انہوں نے آخری اور فیصلہ کن داؤ مارا، ’’کیا تو نے نہیں کہا تھا کہ وکیل صاحب کرسی پر بیٹھیں گے تو میرا دست پناہ انہیں زمین پر پٹک دے گا۔ اور سارا قانون ان کے پیٹ میں ڈال دے گا؟‘‘


’’یہ میں نے ضرور کہا تھا۔‘‘


اب حامد اس سارے ڈرامے کو مذاق سمجھنے لگا۔ اسے وکیل صاحب کے اس حشر پر ہنسی آگئی۔ حامد کو ہنستا دیکھ کر وکیل صاحب کو جیسے غصہ آگیا۔


’’ایک تو تو نے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اوپر سے ہنس رہاہے۔‘‘ وکیل صاحب گرجے۔ حامد نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلاکر دیکھے۔ اس میں قانون تو کیا کچھ بھی نہ تھا۔ وکیل صاحب کو حامد کی معصومانہ ادا بھی ایک آنکھ نہ بھائی اور بولے، ’’ہاتھ کیا دیکھ رہا ہے؟‘‘


’’دیکھو امینہ، حامد نے تمہارے سامنے اقبال جرم کیا ہے۔ اس سے بڑی اور کیا گواہی ہو سکتی ہے؟‘‘ انہوں نے گویا فیصلہ سنایا اور سپاہی کواشارہ کیا۔


’’حامد کو گرفتار کر لو اور آلۂ قتل اپنے قبضہ میں لے لو۔ حامد کے اقبال جرم کے تم سب گواہ ہو۔‘‘


اپنی کامیابی کی خوشی میں اس کا سینہ پھول گیا تھا۔ انہوں نے ایک فاتح کے انداز میں خنجری، سپاہی، بھشتی، امینہ اور حامد پر نظر ڈالی اور دوسراحکم داغ دیا، ’’امینہ بھی گرفتار کرلی جائے۔ قتل کے مجرم کو پناہ دینے کے الزام میں۔‘‘ سپاہی نے جھٹ سے آگے بڑھ کر حامد اور امینہ کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں۔ حامد اور امینہ روتے اور چلاتے رہے لیکن ان کی آواز خنجری کی دھپ دھپ میں دب گئی۔


ایک خنجری کہتی، ’’حامد قاتل ہے۔ امینہ نے قتل کے مجرم کو پناہ دی۔‘‘ تو ساری خنجریاں دھپ دھپ کرکے اس اعلان کو دہراتیں اور اپنی بے گناہی کا اعلان کرنے والوں کی آوازیں خود ان کے کانوں تک نہ پہنچ پاتیں۔


اس کے بعد حامد اور امینہ کی آواز پھر کبھی نہ سنائی دی۔


اوربہت دنوں بعد ان سب کو حامد کے چمٹے کی یاد آئی اور اس کے سہارے حامد اور امینہ کی بھی۔ ہوا یوں کہ حامد کا چمٹا کیا ٹوٹا کہ تووں کی روٹیاں جلنے لگیں۔ روٹیوں کو بچانے کی کوشش میں ہاتھ جل گئے، کہیں چھالے بہہ کے پھوٹ نکلے، کہیں گہرے زخم بن گئے۔ اب ان سب نے حامد، اس کے چمٹے اور امینہ کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ امینہ اور حامد تو نہیں ملے ہاں ان کا چمٹا ضرور مل گیا۔ بیچ سے ٹوٹا ہوا۔ ایک ٹکڑا عیدگاہ کے ایک کونے میں پڑاتھااور دوسرا بہت دور دوسرے کونے میں۔ لیکن یہ کام آسانی سے نہیں ہوگیا۔ بہت سے لوگوں نے مل کر یہ کام بہت دنوں بلکہ مہینوں اور برسوں کیا تب لوہے کے یہ لمبے لمبے ٹکڑے جو برف سے زیادہ ٹھنڈے تھے وہ تلاش کرسکے۔ اب انہیں ان ٹکڑوں کو جوڑنے کی فکر ہوئی، بھٹی دہکائی گئی، سب نے مل کر دھونکنی کی مدد سے بھٹی کی آگ کو خوب لپکایا۔ لیکن چمٹے کے دونوں کنارے، جہاں سے وہ پہلے کبھی جڑے تھے، پھر ایک نہ ہوئے۔


پھر انہوں نے ان دونوں ٹکروں کو اپنے سینوں سےلگایا، ان پر محبت سے ہاتھ پھیرا تو چمٹے کے دونوں بازوؤں کے سرے چمک اٹھے۔ ان میں گرمی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ لیکن ابھی گرمی، دلوں کی گرمی، اتنی نہ تھی کہ حامد کا چمٹا جڑ کر پھر سے ایک ہو جاتا۔ اب وہ سب ایک دوسرے کے دلوں کی گرمی کی تلاش میں نکلے ہیں کہ اسے ایک جگہ جمع کرکے حامد کا چمٹا جوڑ دیں۔