دشت تعلق

پھول کی پتی سے ہیرے کاجگر کیسے کٹ سکتاہے یہ کوئی ابراہیم سے پوچھے جس کے ساتھ اسکول کے پاس والے کھابڑ کھوبڑ میدان میں ایک لاوارث قبر کے قریب گلاب کےایک پودے سے بے رحمی کے ساتھ توڑے ہوئے پھول کو دیکھ کر جس کی پنکھڑیاں اب بھی کٹورے میں لگی ہوئی تھیں اور تروتازہ تھیں ہم دونوں نے تقریباً ایک ساتھ یہ مصرعہ پڑھا تھا،


کیا خطا تھی میری ظالم تو نے کیوں توڑا مجھے


ہم دونوں نےگلاب کی ان پنکھڑیوں پر جو اَب بھی کٹوری میں لگی ہوئی تھیں پیار سے انگلیاں پھیری تھیں۔ ان دوتین پنکھڑیوں کو جو زمین میں بکھر گئی تھیں، لیکن تھیں اب بھی تروتازہ، محبت بھری چٹکیو ں سےاٹھاکر پنکھڑیوں کےساتھ سجانےکی کوشش کی تھی۔ اس شخص کو جس نے یہ پھول اس قدر بے رحمی سے توڑا تھاکوسا، کاٹا تھااور روئےتھے۔ پھول کے توڑے جانے پر نہیں بلکہ اس طرح توڑے جانے پرکہ اس کا وجود بکھر کر رہ گیا تھا۔


ہماری دوستی کاسارے اسکول میں چرچاتھا۔ ابراہیم کہاں ہوگا؟ وہاں جہاں میں ہوں گا۔ میں کہاں ہوں گا، وہاں جہاں ابراہیم ہوگا! ہم اسکول میں تقریباً سارے وقت ساتھ ساتھ رہتے، جانے کیا کیا باتیں کرتے۔ ایک ساتھ پڑھائی بھی کرتے تھے یا نہیں یہ اب یاد نہیں۔


پھر میرے والدین کو جانے کیا سوجھی کہ مجھے تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھوپال بھیج دیا گیا۔ اسٹیشن پر چند رشتہ داروں، والد کے چپراسی بالادین اور کچھ دوسرے لوگوں کے علاوہ جو شخص مجھے الوداع کہنےآیا تھا وہ ابراہیم تھا۔ اور جب گاڑی نےرینگنا شروع کیا تھا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ میں بھی آنسو روکے کھڑکی کے پاس بیٹھا، گردن باہر نکالے ابراہیم اور صرف ابراہیم کو دیکھتا رہا تھا، یہاں تک کہ گاڑی نے موڑ لیا اور پلیٹ فارم آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ والدہ نے میرا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کرنے لگیں۔ لیکن میرے آنسو نہ تھمے اور پھر میں روتے روتے نہ جانے کب سوگیا۔


دوسال بعد جب میں بھوپال سے بھاگ کر منماڑ، بمبئی اور اورنگ آباد ہوتا ہوا اورئی پہنچا اور اسٹیشن کے باہر سندر تانگے والے نے مجھے دیکھتے ہی اپنی سواریاں اتاردیں اور گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے میونسپل ہال کی طرف اڑا تو تانگہ اتھائی کی طرف جا رہا تھا اور میرا دل بالکل دوسری طرف۔ ابراہیم کے گھر کی جانب۔ آگے تراہے کے پاس جب تانگہ بائیں طرف مڑا تو جنوری کے پہلے ہفتے کی اس صبح میں جب کہرا برکی طرح چھایا ہوا تھا میری آنکھوں نے ابراہیم کاگھر تلاش کرہی لیا۔ لیکن وہ گھر آنکھوں نے نہیں ، دل نے دیکھا تھا۔


ساٹھیا کنووں، دوہائی اسکولوں، ٹین کے ایک سنیما گھر اور چھوٹے سےبازار کے اس شہر کی کچہری میں پشکا ر کا بیٹا جس کے بارے میں اس کے والدین کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ اسے عزیزوں نے قتل کرکے کہیں گاڑ دیا ہے، یوں اچانک واپس آجائے تو یہ ایک واقعہ تو ہوا ہی۔ تھوڑی ہی دیر میں لوگ آنے لگے۔ پہلے محلے والے آئے، پھر رشتہ دار، پھر وہ جن سے گہرے تعلقات تھے اور میں ان کے درمیان گھرا بیٹھا رہا۔۔۔ اور وہی ایک کہانی جس میں کچھ سچ تھا کچھ جھوٹ، کچھ عزت تھی، کچھ عزت کوبچانے کی کوشش، سنتے سنتے تنگ آگیا تو چپکے سے اٹھا۔ ہونٹوں کو جنبش دیے بغیر آنکھوں سے کہا ، ’’ابھی آتا ہوں۔۔۔‘‘ اور پھر میں وہاں نہیں تھا۔


گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد جب میں اور ابراہیم اسی کھابڑ اور کھوبڑ میدان میں ایک پتھر پر بیٹھے نہ جانے کیا کیا باتیں کر رہے تھے کہ لوگ مجھے تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔


’’میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ ابراہیم کے ساتھ ملے گا۔۔۔‘‘ مجھے ڈھونڈنے والوں میں سے کسی نے کہا تھا۔


اور پھر یہ دوسال درمیان سے اس طرح غائب ہوگئے جیسےکبھی آئے ہی نہ ہوں۔


لیکن کچھ دنوں بعد۔۔۔


’’کل شام میں تمہارا انتظار کر رہا تھا۔۔۔‘‘ ابراہیم نے کہا۔


’’ہاکی کھیلنے چلا گیا تھا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔


پھر چند مہینوں بعد۔۔۔


’’یہ بھورے رنگ کاکوٹ تم نے کیوں بنوایا۔‘‘میں نے ابراہیم سے کہا۔ ’’تمہارے سرخ سپید چہرے پر تو کوئی شوخ رنگ کھلتا۔‘‘


’’ابو کو تو لال دھاری کا کپڑا پسند تھا لیکن مجھے یہی اچھا لگا۔‘‘ اس نےجواب دیا۔


پھر ایک دن وہ تار آیا جس نے زندگی کا سارا منظر ہی بدل دیا۔


’’تمہارے والد کی طبیعت بہت خراب ہے۔ فوراً آؤ۔‘‘


یہ تار اس وقت دیا گیا تھا جب ان کی آخری رسوم بھی ادا کی جاچکی تھیں۔ میں بلکہ ہم سب لوگ لکھنؤ چلے آئے اور زندگی کی اس منزل میں داخل ہوگئے جہاں اپنی تو کیا ابراہیم کی بھی یاد نہیں آئی۔ دس بارہ سال بعد کرسچین کالج کے سامنے والی سڑک کی دوسری طرف ایک سائیکل سوار پر نظریں ٹک گئیں۔ جی چاہا کہ کھڑکی سے پھاند پڑوں لیکن بس کی رفتار بہت تیز تھی۔ میں اپنی سیٹ میں پھڑپھڑاکے رہ گیا۔ سائیکل سوار ابراہیم کے بڑے بھائی تھے۔


بس جب تک چوک پہنچ نہ گئی میں ابراہیم ہی کے بارے میں سوچتا رہا۔ کیا وہ بھی اسی شہر میں ہے؟ لیکن کبھی نظر تو آیا ہوتا۔ شاید ایک بار کسی کو دیکھ کر ابراہیم کا شبہ ہوابھی تھا لیکن بس ایک جھلک دیکھی تھی۔ ممکن ہے وہی رہا ہو۔ یا پھر کوئی اور ہو۔۔۔ بچپن کی یادیں بہت سی دوسری یادوں کے ساتھ گڈ مڈ ہوجاتیں لیکن ان کاخاتمہ کسی نہ کسی ایسے واقعہ سے ہوتاجس میں ابراہیم ضرور شامل رہتا۔


میں بس سے اترا۔ اس وقت بھی ابراہیم اپنی یاد کی شکل میں میرے ساتھ تھالیکن پھر سڑک کی بھیڑ بھاڑ میں وہ نہ جانے کہاں کھوگیا اور جب میں گھر پہنچ کر چائے پیتے ہوئے اخبار پر دوبارہ نظر ڈالنے لگا تو ابراہیم کہیں نہ تھا۔ نہ میرے پاس۔ نہ میری یادوں کے پاس۔ شاید وہ بھی بھیڑ میں گم ہوکر مجھے بھول چکاہوگا۔


ابراہیم کی یاد کبھی کبھی آتی ضرور لیکن ایسے جیسے رات کے ایک دوبجے مغرب سے مشرق کی جانب پروازکرنے والے اس طیارہ کی آواز جسے کمرہ سے نکل کر آسمان میں دیکھیے تو ذرا کی ذرا میں نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔جب بھی کرسچین کالج کے سامنے سے گزرتا، میری نظریں خود بخود اس ڈھلان کی طرف مڑجاتیں لیکن پل تک پہنچتے پہنچتے یا پھر اس سے پہلے ہی سامنے سڑک پر آنے والی گاڑیاں، ٹرک، سائیکلیں اور اچھے برے چہرے ہوتے۔ ان میں ابراہیم کا چہرہ نہ ہوتا۔


کئی سال گزر گئے، کھابڑ کھوبڑ میدان میں بے رحمی سے ابھی ابھی توڑے ہوئے گلاب کی پنکھڑیاں مرجھا گئیں کہ ان پر پیار سے ہاتھ پھیرنےوالا کوئی نہ تھا۔ جب انہیں یاد کرنے والا بھی کوئی نہ تھا تو پھر ابراہیم کو کون یاد کرتا۔۔۔ دفتر کی مصروفیات، شہرت کا تازہ تازہ نشہ، حضرت گنج کی چہل پہل، سائیکل کے چکر لگانے والے پہیے اور وہ ٹانگیں جو پیڈل کو گھمایا کرتیں، وہ نفرتیں جو محبت کا بدل تھیں، وہ محبتیں جو نفرتوں سےتحفظ کرتی تھیں، ان سب میں کوئی گھر جائے تو ابراہیم کہاں رہے گا؟ کہیں رہے، دل میں تو اس کے لیےہرگز جگہ نہ نکل سکےگی۔


پھر ایک دن، کئی سال بعد، اسی تراہے کے موڑ پر وہی سائیکل سوار نظر آیا جسےدیکھ کر میں بس کی سیٹ میں پھڑپھڑاکے رہ گیا تھا۔ میں نے اپنی سائیکل اسی ڈھلان پر موڑ دی اور چند ہی منٹوں میں اس مکان کے سامنے رک گیا جہاں مجھ سے آگے جانے والی سائیکل رکی تھی۔ میں نے کہا، ’’معاف کیجیے، آپ ابراہیم کے بھائی تو نہیں ہیں؟‘‘


دوآنکھوں نے مجھے پلٹ کر دیکھا تو میں نے جان لیا کہ میرا سوال بیکار تھا۔ وہ ابراہیم کے بھائی ہی تھے لیکن انہوں نے مجھے پہچانا نہیں تھا۔ دہرا بدن، سیاہی کی سرحدوں کو چھوڑ کر قفسی رنگ اختیار کرتے ہوئے بال، آنکھوں پر موٹے فریم کاچشمہ، وہ مجھے بھلا کیا پہچانتے۔ ان کی آنکھوں میں اجنبیت تھی۔


’’میں عابد سہیل ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔


ان آنکھوں میں اجنبیت اب بھی برقرار تھی۔


’’جی نہیں سید محمد عابد۔۔۔ اورئی میں رہتا تھا۔ ابراہیم کا کلاس فیلو تھا۔‘‘


’’دیکھتا ہوں۔ شاید ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا۔ لیکن آنکھوں میں ناشناسی اب بھی تھی۔میں ابھی سائیکل میں تالہ لگا بھی نہ پایا تھا کہ ایک گورے سے بچے نےباہرکے کمرہ کادروازہ کھول دیا۔


’’بیٹھے، ابو آتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا اور کنکھیوں سے میری طرف دیکھا۔میں نے ایک نظر کمرہ پر ڈالی لیکن آنکھیں پھر اس دروازہ پر ٹک گئیں جو اس کمرہ کو مکان کے اندرونی حصے سے جوڑتا تھا۔ چند منٹوں بعد کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی۔ میں اضطراب میں کرسی پر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اسی لمحہ ایک لحیم شحیم شخص کمرہ میں داخل ہوا۔ لیکن میری آنکھوں نے اسے پہچاننے میں غلطی نہیں کی۔ وہ ابراہیم تھا۔


میں نےدونوں ہاتھ پھیلا دیے۔ وہ بھی آگے بڑھا اور ہم ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے جنہیں چھپانے کے لیے میں نے اپنی آنکھیں دھیرےدھیرے اس کی قمیص سے رگڑیں اور پھر ہم پاس پاس کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ اس کی آنکھوں میں کچھ بھی نہ تھا۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی۔ پھر میں نے سوچا ممکن ہے اس نے بھی آنسو میری قمیص میں جذب کردیے ہوں۔ یہ خیال آتے ہی میرا بایاں ہاتھ لاشعوری طور پر کندھے پراس جگہ پہنچ گیا جہاں ابھی تھوڑی دیر قبل اس کا سرٹکا تھا۔ میری انگلیوں کو ہلکی سی نمی کا احساس ہوا اور اس احساس نے دل کے کھابڑ کھوبڑ میدان میں لاوارث قبر کے پاس والے گلاب کے پودےسے بے رحمی کے ساتھ توڑے ہوئے پھول کی پنکھڑیوں کو تروتازہ کردیا۔


’’ہم لوگ کتنےسال بعد مل رہے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔


اس نےانگلیوں پر کچھ حساب لگایا، پھر کچھ سوچا اور کہا، ’’پندرہ سال بعد۔‘‘


’’غلط۔‘‘ میں نےجواب دیا۔ ’’پورے بیس سال بعد، بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ۔‘‘


پچیس سال پہلے تو دو برسوں کو بھی ہم نے درمیان سے غائب نہیں ہونے دیا تھا اور انہیں جیسے واپس لے آئے تھے لیکن آج بیس سے زائد بلکہ پچیس سال کیسی آسانی سے کھوگئے تھے۔


مجھے کچھ سوچتے دیکھ کر اس نے پوچھا، ’’یہاں کیا کر رہے ہیں آپ۔۔۔تم۔۔۔؟‘‘ الفاظ کی ترتیب کچھ ایسی تھی کہ ’’آپ‘‘ کو ’’تم‘‘ سے بدلنا ممکن نہ تھا۔ اس لیے اس نےجملہ ہی بدل دیا ، ’’کیا کر رہے ہو؟‘‘


’’ایک اخبار میں کام کرتا ہوں، اور آپ، تم؟‘‘


’’ارّری گیشن آفس میں ہوں۔‘‘


’’شادی کب ہوئی؟‘‘ میں نے پوچھا۔


اس نے پھر انگلیوں پر حساب لگایا۔


’’کوئی پندرہ سال ادھر۔‘‘


میں نے اسے دوسری بار انگلیوں پر حساب لگاتےدیکھا تو پوچھا۔


’’کیا تو نے بی کام کیا ہے؟‘‘


وہ مسکرایا۔


’’ہاں اِرّری گیشن آفس میں اکاؤنٹنٹ ہوں۔‘‘


میں بھی مسکرا دیا۔


’’بھابھی کہاں ہیں؟‘‘میں نےانگلیوں پر کی جانےوالی گنتی کو زیادہ تیر تک اگلے سوال کی راہ میں حائل نہ ہونےدیا۔


’’کہیں گئی ہوئی ہیں۔‘‘


’’اور بچے کتنے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔


’’دولڑکے، ایک لڑکی۔‘‘


’’پہلا بچہ تو اب ماشاء اللہ بڑا ہوگا۔‘‘


’’ہائی اسکول کا امتحان دے گا اگلے سال۔‘‘


پھر اس نے بھی میرے بارے میں یہی باتیں دریافت کریں۔


اس کےبعد۔


’’اور کیا حال چال ہیں؟‘‘


’’خدا کا شکر ہے۔‘‘


’’گرمی بہت ہو رہی ہے آج۔‘‘


’’لیکن کل سےکم ہے۔‘‘


’’اور۔۔۔‘‘


وہ مسکرایا۔


’’باقی سب ٹھیک ہے۔‘‘


اب کمرہ میں مکمل سناٹا تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے سارے سوال پوچھ چکے تھے۔ سارےجواب دے چکے تھے۔ اب یہ سناٹا مجھے کاٹنے لگا تھا۔ شاید اسے بھی۔اس نے کہا، ’’ملتے رہیےگا۔‘‘


میں نے اس جملہ کے وہی معنی لیے جو میں چاہتا تھا اور شاید تھے بھی۔


’’ضرور۔۔۔ کیوں نہیں۔۔۔‘‘ میں نے کرسی پر سےاٹھتے ہوئے کہا۔


ابراہیم مجھے باہر تک چھوڑنے آیا۔ میں نےسائیکل کا تالہ کھولا۔ پھر اس سے ہاتھ ملایا۔ اس کا ہاتھ ٹھنڈا تھا۔ میرا ہاتھ بھی کچھ ایسا گرم نہ تھا۔ میں نے پیڈل پر پیر رکھا تو وہ مجھ پر ایک نظر ڈالے بغیر گھر کے دروازے کی طرف مڑگیا۔ میں نے بھی پلٹ کر نہ دیکھا۔


یہ ہم دونوں کی آخری ملاقات تھی۔ اسے پندرہ برس ہوچکے ہیں۔