رہائی

اسیر لوگو
اٹھو اور اٹھ کر پہاڑ کاٹو
پہاڑ مردہ روایتوں کے
پہاڑ اندھی عقیدتوں کے
پہاڑ ظالم عداوتوں کے


ہمارے جسموں کے قید خانوں میں
سیکڑوں بے قرار جسم
اور اداس روحیں سسک رہی ہیں
وہ زینہ زینہ بھٹک رہی ہیں
ہم ان کو آزاد کب کریں گے
ہمارا ہونا
ہماری ان آنے والی نسلوں کے واسطے ہے
ہم ان کے مقروض ہیں
جو ہم سے وجود لیں گے نمود لیں گے


کٹے ہوئے ایک سر سے لاکھوں سروں کی تخلیق
اب کہانی نہیں رہی ہے


لہو میں جو شے دھڑک رہی ہے گمک رہی ہے
ہزاروں آنکھیں
بدن کے خلیوں سے جھانکتی بے قرار آنکھیں
یہ کہہ رہی ہیں
اسیر لوگوں
جو زرد پتھر کے گھر میں
یوں بے حسی کی چادر لپیٹ کر سو رہے ہیں
ان کو کہو کہ اٹھ کر پہاڑ کاٹیں
ہمیں رہائی کی سوچنا ہے