رونق بزم تھا کیا ہوا
رونق بزم تھا کیا ہوا
اک دیا ٹمٹماتا ہوا
اب کرے کیا تماشہ کوئی
آدمی خود تماشہ ہوا
کشتیاں ڈوب کر رہ گئیں
پار دریا کے تنکا ہوا
دیکھیے گلستاں کی طرف
ہے ہر اک پھول مسلا ہوا
وہ نمک ڈال کر چل دئے
زخم دل اور گہرا ہوا
بن گیا زینت گلستاں
خوں ہمارا نچوڑا ہوا
بے بسی دیکھ کر اے نیازؔ
رک گیا کوئی آتا ہوا