رنج و ملال و غم سے کسی کو مفر نہیں
رنج و ملال و غم سے کسی کو مفر نہیں
آزاد قید فکر سے کوئی بشر نہیں
دل میں لگی ہے آگ جگر پر اثر نہیں
یہ درد اور ہے جو ادھر ہے ادھر نہیں
ذرے میں کیسے وسعت کونین آ گئی
خود اپنی مردمک پہ ہماری نظر نہیں
کھنکے نہ ان کی بزم کا ساغر کوئی مگر
اپنی شکست شیشۂ دل کی خبر نہیں
دم بھر کا فاصلہ ہے حیات و ممات میں
منزل کوئی اب اس سے سوا مختصر نہیں
ہچکی شب فراق کی کچھ کہہ رہی ہے اور
یعنی ہماری یاد سے وہ بے خبر نہیں
پیری میں خواب دیکھ رہا ہوں شباب کے
جیسے ابھی ہے رات نمود سحر نہیں
قید سجود دیر و حرم پھر ہے کیا ضرور
وہ لا مکاں ہے اس کا کوئی سنگ در نہیں
میں دیکھتا ہوں صنعت صناع روزگار
دیکھوں تمہیں یہ اپنا مذاق نظر نہیں
مرنے کے بعد ہوتی ہے محسوس اب کمی
بزم ادب میں شعلہؔ تحمل دگر نہیں