رنج ہے اس رنج سے ہم کو تو غم اس غم سے ہے

رنج ہے اس رنج سے ہم کو تو غم اس غم سے ہے
جو شکایت ہم کو ان سے ہے وہ ان کو ہم سے ہے


کیا پڑی ہے پھر کسی کے واسطے روتا ہے کیوں
آبروئے عشق اپنے دیدۂ پر نم سے ہے


جھوٹے منہ کوئی تسلی بھی نہیں دیتا کبھی
پھر یہ کیوں صاحب سلامت اپنی اک عالم سے ہے


دشمنوں کا دو ہی دن میں سب بھرم کھل جائے گا
ان کی ساری شان و شوکت ایک میرے دم سے ہے


ہاتھ جوڑے منتیں کیں خیر وہ تو من گئے
اور لوگوں کو بھی اب ایسی تمنا ہم سے ہے


اس مذاق خاص کے بھی لوگ دیکھے ہیں کہیں
آپ کی بھی جان پہچان آخر اک عالم سے ہے


سب صفیؔ کی آہ پر بے ساختہ کہتے ہیں واہ
اس کا رونا بھی مگر کچھ تال سے ہے سم سے ہے