درد سمجھے نہ کوئی درد کا درماں سمجھے

درد سمجھے نہ کوئی درد کا درماں سمجھے
لوگ وحشت کو علاج غم دوراں سمجھے


دل پہ کیا گزری اچانک ترے آ جانے سے
اس نزاکت کو بھلا کیا کوئی مہماں سمجھے


عرش و کرسی سے پرے رکھتے ہیں جو لانگہہ فکر
منظر دہر کو ہم روزن زنداں سمجھے


وہ بھڑکتے ہوئے شعلے تھے نشیمن کے مرے
دور سے آپ جنہیں سرو چراغاں سمجھے


یوں بھی حالات سے سمجھوتہ کیا ہے اکثر
دشمن جاں کو بھی ہم اپنا نگہباں سمجھے