رنج دنیا فکر عقبیٰ جانے کیا کیا دل میں ہے
رنج دنیا فکر عقبیٰ جانے کیا کیا دل میں ہے
زندگی دو دن کی اپنی سیکڑوں مشکل میں ہے
راہ الفت میں بہت کچھ خاک بھی چھانی مگر
میری جانب سے غبار اب تک کسی کے دل میں ہے
وہ جفا پیشہ جفا جو ہے جفا اس کی سرشت
جس کو کہتے ہیں وفا وہ میرے آب و گل میں ہے
تہہ نشیں ہو کر ملی موج حوادث سے نجات
کشتئ عمر رواں اب دامن ساحل میں ہے
سخت جانی سے مری پالا اگر پڑتا اسے
دیکھتا پھر زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اپنی اپنی گا رہے ہیں دونوں شیخ و برہمن
دیر و کعبہ میں کہاں ہے جو حریم دل میں ہے
مرحلے ہر روز انساں کو نئے آتے ہیں پیش
آج اس منزل میں ہے کل دوسری منزل میں ہے
کچھ تو پاس حسن کچھ ان کی نظر کا سامنا
وہ زباں پر لا نہیں سکتا جو میرے دل میں ہے
جانتا ہوں گو مآل حضرت آدم مگر
کوئے جاناں کی تمنا پھر بھی میرے دل میں ہے
دیکھیے آئینۂ پیری میں پھر بچپن کا حال
عہد ماضی کی جھلک کچھ عہد مستقبل میں ہے
سوچ کر فریاد کا انجام میں خاموش ہوں
ورنہ اب بھی قوت فریاد میرے دل میں ہے
ہے شکست بے ستوں معیار استعداد عشق
کوہ کن کا نام فرد جوہر قابل میں ہے
عشق مجنوں نے کچھ اونچا کر دیا معیار حسن
ورنہ لیلیٰ کی حقیقت پردۂ محمل میں ہے
کوئی ہے ساغر بکف کوئی صراحی در بغل
تشنہ کام اب تک مگر شعلہؔ تری محفل میں ہے