رنگین خواب آس کے نقشے جلا بھی دے
رنگین خواب آس کے نقشے جلا بھی دے
جاں پہ بنی ہے روشنی اس کو بجھا بھی دے
ناموس ضبط بوجھ ہے کب تک لئے پھروں
ساری امیدیں چھین کے مجھ کو رلا بھی دے
پہنچا ہے کس کی کھوج میں حد زوال تک
گم ہو گیا ہے کون تو اس کا پتا بھی دے
بے چارگی کی رات کے غار سیاہ سے
قید سکوت توڑ کے کوئی صدا بھی دے
ہر آئنے پہ وقت کی انگلی کے داغ ہیں
مٹ جو سکیں یہ داغ تو ان کو مٹا بھی دے
اس دشت بے گیاہ میں مجبور ہوں کھڑا
منزل کا کچھ نشان دے رستا بتا بھی دے
جس پہ رتوں کے ہاتھ کی تحریر ہے لکھی
فکریؔ وہ اپنے جسم کی دیوار ڈھا بھی دے