رہ حیات میں کوئی چراغ ہی نہ ملا
رہ حیات میں کوئی چراغ ہی نہ ملا
کسی دماغ سے اپنا دماغ ہی نہ ملا
غم زمانہ سے فرصت تو مل بھی سکتی تھی
تمہاری یاد سے لیکن فراغ ہی نہ ملا
صلائے خاص کی لذت کو عمر بھر ترسے
کہ ان کے ہاتھ سے کوئی ایاغ ہی نہ ملا
بجز لطافت احساس جستجو دل میں
نگار رفتہ کا کوئی سراغ ہی نہ ملا
تم اس سے پوچھتے ہو لذت غم ہجراں
غم حیات سے جس کو فراغ ہی نہ ملا
بس اب یہ خون تمنا ہو نذر ویرانہ
تلاش تھی ہمیں جس کی وہ باغ ہی نہ ملا
تمہی بتاؤ کہ ایسے میں کیا بناتے گھر
کہ گھر کے واسطے کوئی چراغ ہی نہ ملا
ہر ایک شخص سے ہنس کر ملے جو ہم نوریؔ
ہمارے سینے میں دنیا کو داغ ہی نہ ملا