رباب حسن ہے یا کوئی ساز الفت ہے
رباب حسن ہے یا کوئی ساز الفت ہے
سمجھ میں آ نہ سکی دل کی جو حقیقت ہے
کدورتوں سے یہ اہل جہاں کی حالت ہے
نہ اب دلوں میں صفائی نہ رسم الفت ہے
مریض ہجر کی اب کچھ عجیب حالت ہے
نہ ہوش ہی میں ہے اپنے نہ خواب غفلت ہے
بنے جو اور بگڑ جائے ہے مری تقدیر
بگڑ بگڑ کے بنے جو عدو کی قسمت ہے
قدم قدم پہ ہیں صحرا کے خار دامن گیر
وفا کی راہ میں ہر گام پر مصیبت ہے
زباں کھلے گی نہ محشر میں سامنے ان کے
کرے جو حشر میں فریاد کس کی جرأت ہے
گلوں کا کھل کے بکھرنا ہے آئنہ غم کا
چمن کا یوں تو ہر اک پتہ نقش عبرت ہے
بکھر رہا ہے کتاب جہاں کا شیرازہ
قیامت آنے سے پہلے یہ کیا قیامت ہے
سمٹ کے آ گئی پہلو میں کائنات جہاں
سمجھ میں آ نہیں سکتی جو دل کی وسعت ہے
یہ ذوق شعر و سخن فطرتاً ہے اے شعلہؔ
نمود و نام کی خواہش نہ فکر شہرت ہے