راز یہ مجھ پہ آشکارا ہے
راز یہ مجھ پہ آشکارا ہے
عشق شبنم نہیں شرارا ہے
اک نگاہ کرم پھر اس کے بعد
عمر بھر کا ستم گوارا ہے
رقص میں ہیں جو ساغر و مینا
کس کی نظروں کا یہ اشارا ہے
ایسی منزل پہ آ گیا ہوں جہاں
ترے غم کا ہی اک سہارا ہے
لوٹ آئے ہیں یار کے در سے
وقت نے جب ہمیں پکارا ہے
دل نہ ٹوٹے تو ذرۂ ناچیز
کیمیا ہے جو پارا پارا ہے
جام رنگیں میں ان کا عکس جمال
یا شفق میں کوئی ستارا ہے
ناؤ ٹکڑے ہوئی ہے طوفاں سے
اب تو مرشد کا ہی سہارا ہے
عشق کرنا ہے مات کھا جانا
اس میں جیتا ہوا بھی ہارا ہے
اپنے درشن پہ اک نگاہ کرم
وہ غم زندگی کا مارا ہے