راز

شام و سحر کے منظر گہری اداسیوں کے
پردے گرا رہے ہیں
واقف تو تھیں ہمیشہ ان سے میری نگاہیں
اوڑھے نہ تھیں فضائیں
یوں کہر کی عبائیں
کچھ تو جو کھو گیا ہے
شاخ نظر پہ دہکا
برگ حنا کا شعلہ
یوں کانپتا ہے جیسے
مٹتا کوئی ہیولیٰ
شام و سحر سے کوئی مفرور ہو گیا ہے
سینے میں میں تقاطر