رات کے جنگل میں کوئی راستہ ملتا نہیں
رات کے جنگل میں کوئی راستہ ملتا نہیں
ایسا الجھا ہوں کہ اب اپنا سرا ملتا نہیں
چپ ہیں اب سارے دریچے بند ہیں سارے کواڑ
اور کسی دیوار پر کوئی دیا ملتا نہیں
اضطراب آرزو کا ساتھ دیں تو کس طرح
دل پرانا ہو چکا ہے اور نیا ملتا نہیں
جانے کس دریا سے خوشبو باندھ کر لاتی ہے یہ
دیکھیے تو جادۂ موج صبا ملتا نہیں
منعکس کرتا ہے جانے کون میری حیرتیں
آئنے کو توڑ کر بھی آئنہ ملتا نہیں
بند ہوتے جا رہے ہیں واپسی کے راستے
لوٹ کر دیکھوں تو کوئی نقش پا ملتا نہیں
مان لو ارمانؔ اب خوشبو کے رشتے مر گئے
اب کسی گل کو کسی گل کا پتا ملتا نہیں