دشت روز و شب میں دل بیتاب کو تازہ رکھنا
دشت روز و شب میں دل بیتاب کو تازہ رکھنا
آنکھیں بے شک جھڑ جائیں اک خواب کو تازہ رکھنا
میں بھی اپنی پیاس نہیں بجھنے دوں گا اور تم بھی
اپنے صحرا کے ہر ایک سراب کو تازہ رکھنا
جذبوں کی اس جھیل میں سوچ کی کائی نہ جمنے پائے
اپنی تمنا کے عکس مہتاب کو تازہ رکھنا
شاخ ہنر سے توڑ کے شعر کا پھول میں اس کو دے دوں
اس کی زلف کو ہے معلوم گلاب کو تازہ رکھنا
اس تاریک اداس اور بند گلی میں رہتے لوگ
راستے روشنی اور خوشبو کے خواب کو تازہ رکھنا