جب تجھے ملنے کی تدبیر نئی ہوتی ہے
جب تجھے ملنے کی تدبیر نئی ہوتی ہے
صورت گردش تقدیر نئی ہوتی ہے
منہدم ہوتا ہوں ہر آن پس حرف کہن
تب کہیں شعر کی تعبیر نئی ہوتی ہے
کیسے لوٹا میں ترے دست زمانہ گر میں
تیرے چھونے سے تو تصویر نئی ہوتی ہے
وقت دے جائے جسے یاد پرانی کوئی
روز اس حرف کی تاثیر نئی ہوتی ہے
اک عجب کیف میں چلتا ہوں سر دشت بلا
جب مرے پاؤں میں زنجیر نئی ہوتی ہے
ہم بدلتے نہیں ارمانؔ کبھی جاہ و حشم
ہاں اسی خواب کی تعبیر نئی ہوتی ہے