رات کا نام سویرا ہی سہی
رات کا نام سویرا ہی سہی
آپ کہتے ہیں تو ایسا ہی سہی
کیا برائی ہے اگر دیکھ لیں ہم
زندگی ایک تماشا ہی سہی
کچھ تو کاندھوں پہ لیے ہیں ہم لوگ
اپنے ارمانوں کا لاشہ ہی سہی
پیچھے ہٹنا ہمیں منظور نہیں
سامنے آگ کا دریا ہی سہی
کیا ضروری ہے کہ میں نام بھی لوں
میرا دشمن کوئی اپنا ہی سہی
آئنہ دیکھ کے ڈر جاتا ہوں
آئنہ میرا شناسا ہی سہی
میرا قد آپ سے اونچا ہے بہت
میں حفیظؔ آپ کا سایا ہی سہی