رات گئے تک یوں ہی چلتا رہتا ہوں

رات گئے تک یوں ہی چلتا رہتا ہوں
ویرانی سے باتیں کرتا رہتا ہوں


میری چھاؤں میں بیٹھنے والے سوچ ذرا
سارا دن میں دھوپ میں جلتا رہتا ہوں


آپ تو بالکل ویسے مجھ کو لگتے ہو
میں جس پھول کو خواب میں دیکھتا رہتا ہوں


جیون مجھ کو روز گزارے جاتا ہے
میں ہوں کے بس خاک اڑاتا رہتا ہوں


میں نے اک دن جھوٹ کا لقمہ کھایا تھا
اب میں اکثر خون اگلتا رہتا ہوں


اکثر مجھ کو خود پہ رونا آتا ہے
اکثر یوں ہی خود پہ ہنستا رہتا ہوں


ایک عجب سا پیڑ بلاتا ہے مجھ کو
اور میں اس کے خوف سے ڈرتا رہتا ہوں


جب بھی میں نے تجھ سے ملنا ہوتا ہے
خود سے تیری باتیں کرتا رہتا ہوں