میں تیرے ساتھ چل نہیں سکتا
میں تیرے ساتھ چل نہیں سکتا
تو رویہ بدل نہیں سکتا
آئے درویش گر جلالی میں
پھر یہ سورج نکل نہیں سکتا
راز مٹی میں ہے کوئی شاید
دھوپ میں پیڑ جل نہیں سکتہ
دس کو پالے ہے باپ تنہا ہی
دس سے کیوں باپ پل نہیں سکتا
جس میں شامل ہو سود کی لذت
میں وہ لقمہ نگل نہیں سکتا
تیرے آنسو فضول ہیں طارقؔ
اب یہ پتھر پگھل نہیں سکتا