راستے جو بھی چمک دار نظر آتے ہیں

راستے جو بھی چمک دار نظر آتے ہیں
سب تیری اوڑھنی کے تار نظر آتے ہیں


کوئی پاگل ہی محبت سے نوازے گا مجھے
آپ تو خیر سمجھ دار نظر آتے ہیں


میں کہاں جاؤں کروں کس سے شکایت اس کی
ہر طرف اس کے طرفدار نظر آتے ہیں


زخم بھرنے لگے ہیں پچھلی ملاقاتوں کے
پھر ملاقات کے آثار نظر آتے ہیں


ایک ہی بار نظر پڑتی ہے ان پر تابشؔ
اور پھر وہ ہی لگاتار نظر آتے ہیں