اشکوں سے جو نہائیں لہو سے وضو کریں

اشکوں سے جو نہائیں لہو سے وضو کریں
قربان گاہ فرض کی وہ گفتگو کریں


صحن چمن میں ڈھونڈ چکے حسن ارتقا
صحرا میں اب تجسس جوش نمو کریں


اس شہر بے اماں میں جو صد چاک ہو گیا
اس دامن حیات کو کیسے رفو کریں


جب حسن کی اساس دل بے یقیں پہ ہے
پھر کس لئے ہم اپنے جگر کو لہو کریں


پیمانۂ خلوص نہیں جس کا دل صباؔ
اس شاہد جمال کی کیا آرزو کریں