کھو گئی غیرت دل ذوق طلب باقی ہے

کھو گئی غیرت دل ذوق طلب باقی ہے
کیسے مر جاؤں کہ جینے کا سبب باقی ہے


جلوۂ صبح کا منظر ہے گلستاں میں تو کیا
آشیانوں میں ابھی ظلمت شب باقی ہے


نشر ہو جائے گی خود کلفت دوراں کی حدیث
تیرے شاعر میں اگر جرأت لب باقی ہے


حسن اور عشق میں اک خاص ہے ربط الفت
دل سلامت ہے تو پھر چشم غضب باقی ہے


کوچۂ عشق میں دل آج بھی ہے سرگرداں
اب بھی وہ شیفتۂ عارض و لب باقی ہے


جب تلک دہر میں زندہ ہے زبان اردو
رونق انجمن شعر و ادب باقی ہے


گردش وقت کی رفتار بتاتی ہے صباؔ
چشمک سوز الم ساز طرب باقی ہے