قربتوں میں کھو گیا کہ فاصلوں میں کھو گیا

قربتوں میں کھو گیا کہ فاصلوں میں کھو گیا
قافلہ امکان کا کن راستوں میں کھو گیا


ایک ہی رستہ ملا تھا تجھ تک آنے کے لیے
اور میں اس راستے کی مشکلوں میں کھو گیا


پھر سخن کے دائرے میں آ گیا تیرا خیال
پھر فعولن فاعلن کے سلسلوں میں کھو گیا


گو کہ میرے سامنے وہ جھیل سی آنکھیں نہ تھیں
میں مگر ان کے خیالی منظروں میں کھو گیا


پھول ہیں احمدؔ کہاں اس گلشن برباد میں
پھر یہ نخل دل خزاں کی وسعتوں میں کھو گیا