خواہش و خواب کی نمو میں ہے
خواہش و خواب کی نمو میں ہے
زندگی شوق و جستجو میں ہے
دیر تک دھوپ میں کھڑے رہنا
اے شجر کیا ترے لہو میں ہے
دیکھتے رہ گئے رفو گر بھی
چاک جو جسم آبرو میں ہے
میں جو تصویر لے کے آیا ہوں
گھر کا گھر اس کی آرزو میں ہے
روشنی کی نوید لاؤ کبھی
روشنی وہ جو گفتگو میں ہے
ان لبوں کو خبر نہیں احمدؔ
کس قدر تشنگی سبو میں ہے