قرآن پڑھنا اور پڑھانا

قرآن کو جب بھی پڑھا جائے گا تو اسے  اس کے کئی مدارج کو مدنظر رکھ کر پڑھا جائے گا۔

پہلا درجہ قرات و تجوید کا ہے جو امت کے متواتر عمل سے محفوظ ہے اور ننانوے فیصد مسلمان اپنے علاقے میں مروجہ قرات و تجوید کے مطابق اسے قاری صاحبان سے سیکھتے اور پڑھتے ہیں۔

دوسرا درجہ ترجمہ و تفسیر کا ہے۔ یہاں پر پڑھانے والے اور پڑھنے والے اس لحاظ سے تقسیم ہو جاتے ہیں کہ پڑھنے والا بہر طور بلحاظ نیت و کوشش اجر کا مستحق ہو گا البتہ پڑھانے والے کی نیت، کوشش کے ساتھ اس کے سیکھنے اور سکھانے کے عمل میں دیانت داری کی حتی الوسع کوشش کا حساب کتاب بھی شامل ہو جائے گا۔

اب یہ جو دوسرے درجے کے اساتذہ ہیں ان کا سیکھنے اور سکھانے کا عمل تفسیر و تعبیر کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے اور بلحاظ علم و تقوی ماضی کی طرف سفر کرتا جاتا ہے۔ اس سفر میں مفسرین، محدثین، فقہاء وغیرہ سے بشکل علم و حکمت ملاقات ہوتی اور استفادہ کا عمل ہوتا جاتا ہے تا آنکہ یہ دوسرے درجے والے کی پوزیشن متصل ہو کر متعین ہوتی جاتی ہے۔ اب جتنا اخلاص، تقوی، کوشش، محنت، دستیاب متون، دستیاب اساتذہ اسے ملتے جاتے ہیں اس کا سفر ماضی کی طرف جاتے جاتے رسول اللہ ﷺ سے جڑ جاتا ہے اسی لئے اس کی پوزیشن متصل و متعین ہو جاتی ہے۔

یہ ماضی کی طرف سفر یا اس کی کوشش کلاسیکل روایت کہلاتا ہے۔

اس سفر میں انسانوں کی پوزیشن متصل و متعین ہوتی ہے تو انسانی ہونے کے ناطے ان میں فرق بھی پیدا ہو سکتا ہے اور یقیناً ہوتا ہے۔ یہی فرق کسی معاملے پر متون سے رہنمائی کے لیے کبھی ایک زاویے سے تو کبھی دوسرے زاویے سے مددگار ثابت ہوتا ہے۔

حاصل کلام یہ کہ اگر کوئی  علامہ حمید الدین فراہیؒ  کے نکتہ نظر یا ماڈل سے قرآن کو سمجھنا یا سمجھانا چاہے تو یہ کوئی مذموم بات نہیں۔ اور اگر کوئی کسی دوسرے ممتاز عالم کے نکتہ نگاہ سے قران پڑھنا یا پڑھانا چاہے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔

پڑھنے پڑھانے اور سمجھنے سمجھانے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پورے اخلاص، تقوی اور للہیت کے ساتھ قران کے اس مفہوم تک پہنچنے کی کوشش کرتا رہے جو اصحاب رسول ﷺنے سمجھا تھا۔

ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب۔

متعلقہ عنوانات