یوسف مظفرالدینؒ

1955-1960 کا زمانہ تھا ۔ یوسف مظفر الدین حامد ایک امریکی موسیقار اور گلوکار تھے ۔ یہ جاز میوزک میں دلچسپی رکھتے تھے، چونکہ جاز میوزک Jazz Music اس دور میں ایک انقلابیت اور بغاوت کا پہلو رکھتا تھا اور انہی دنوں کچھ اور جاز سنگرز نے بھی اسلام قبول کیا ، تو حامد صاحب کی دلچسپی بھی اس نئے انقلابی مذہب کی جانب ہوئی ۔ اور یوں تقریباً سترہ سال کی عمر میں مسلمان ہوگئے ۔

اس وقت امریکہ میں اسلام کو عموماً کوئی نہیں جانتا تھا ۔ محض کچھ قادیانی / احمدی حضرات ہی یہاں اسلام کا چہرہ  سمجھے جاتے تھے ۔ حامد صاحب بھی ابتدا میں انہی کے ذریعے اسلام تک پہنچے ۔ پھر اپنے طور پر اسلام کو سیکھنا سمجھنا شروع کیا ، اور اسلام کی اصل دعوت تک رسائی حاصل کی ۔

اسلام کی بحیثیت دین اور تحریک کا نظریہ ان کو بہت بھایا ، اس وقت معلومات کی رسائی کے یہ موجودہ ذرائع تو تھے نہیں ، چنانچہ مزید علم کیلئے دنیا بھر کا سفر کیا ۔

اس سفر میں اقامت دین کے نظریہ کو مزید اچھی طرح سمجھا۔ کسی نے بتایا کہ ایک شخصیت پاکستان میں مولانا سید ابولاعلی مودودیؒ کے نام سے ہے جو اقامت دین کے حوالے سے کام کر رہے ہیں ۔

یوسف مظفرالدین حامد ، یہ سن کر پاکستان پہنچ گئے ۔ مولانا سے ملاقات کی اور ان کے گھر میں رہ کر ان سے علم و عمل کے سفر میں رہنمائی حاصل کرنا شروع کی ۔

ان کا سفر صرف علم کا ہی نہیں رہا ، بلکہ واپس امریکہ آکر ، عملاً اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کی کوششیں شروع کردیں  ۔ اس وقت تک اسلام یہاں امریکہ میں ایک اجنبی مذہب تھا ۔

آپ کی لگن ، آپ کے علم اور آپکی عملی جدوجہد کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ستائس سال کی کم عمری میں ایک اقامت دین کی جدوجہد کی جماعت “ اسلامک پارٹی “ بنائی اور پھر پورے امریکہ کے مسلمانوں کو اس کے تحت متحد کرنا شروع کیا  ۔ اس کا لٹریچر لکھنا شروع کیا ، جس میں قرآن کی دعوت کو  اپنی پارٹی کی بنیاد بنایا۔ اس تحریک نے امریکی عوام بالخصوص سیاہ فام افراد کو ایک نئی امید دی ۔

انکو  بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلا کر اللہ کی غلامی میں لانے کا یہ نظریہ بھا گیا ۔

اسی تحریک کے ثمرات تھے کہ میلکم ایکس جیسے لوگ اس عظیم مشن کو باضابطہ آگے بڑھانے کیلئے میدان میں آگئے ۔طاغوت کو یہ کیسے برداشت ہوتا ۔ چنانچہ پوری قوت ان لوگوں کو مٹانے میں لگ گئی۔ جو میلکم ایکس کی شہادت کا باعث بھی بنی اور مسلمانوں کے آپس کے مسائل کا بھی ۔

پھر غیر ملکی مسلمانوں کی آمد بھی شروع ہوگئی جو اپنے ساتھ اور کئی مسائل بھی لے کر آئی ۔جن پر پھر کبھی بات کریں گے۔

یوسف مظفر الدین حامد ، اللہ کے دین کی اقامت کے اس کام پر مرتے دم تک لگے رہے ۔ وہ تحریک کو ایک بس سے تشبیہ دیتے تھے ۔ “ جیسے ایک بس کو بلکل اسکریچ سے بنانا مشکل ہے اسی طرح ایک نئی تحریک شروع کرنا بھی مشکل ہے۔ البتہ کسی تحریک کا دست و بازو بن جانا ایسے ہی ہے جیسے منزل پر جانے کیلئے خود سے کسی بس کو بنانے کے بجائے پہلے سے چلتی بس میں چڑھ جایا جائے۔ آپ کو بس میں سوار لوگوں سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ آپکو ڈرائیور ( تحریک کا لیڈر ) سے بھی اختلاف ہوسکتا ہے ۔ لیکن اگر وہ بس کو منزل کی جانب لے جارہا ہے تو اس کا ساتھ دیتے رہیں ۔

 سید ابوالاعلی مودودی کے اس روحانی و فکری فرزند نے 15 ستمبر 1991 کو ہنڈورس میں انتقال فرمایا  ۔

اللہ آپ پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔ آمین