قومی زبان

غم الفت مرے چہرے سے عیاں کیوں نہ ہوا

غم الفت مرے چہرے سے عیاں کیوں نہ ہوا آگ جب دل میں سلگتی تھی دھواں کیوں نہ ہوا سیل غم رکتا نہیں ضبط کی دیواروں سے جوش گریہ تھا تو میں گریہ کناں کیوں نہ ہوا کہتے ہیں حسن خد و خال کا پابند نہیں ہر حسیں شے پہ مجھے تیرا گماں کیوں نہ ہوا دشت بھی اس کے مکیں شہر بھی اس میں آباد تو جہاں آن ...

مزید پڑھیے

گونجتا ہے نالۂ مہتاب آدھی رات کو

گونجتا ہے نالۂ مہتاب آدھی رات کو ٹوٹ جاتے ہیں سہانے خواب آدھی رات کو بھاگتے سایوں کی چیخیں ٹوٹتے تاروں کا شور میں ہوں اور اک محشر بے خواب آدھی رات کو شام ہی سے بزم انجم نشۂ غفلت میں تھی چاند نے بھی پی لیا زہراب آدھی رات کو اک شکستہ خواب کی کڑیاں ملانے آئے ہیں دیر سے بچھڑے ہوئے ...

مزید پڑھیے

آیا ہے ہر چڑھائی کے بعد اک اتار بھی

آیا ہے ہر چڑھائی کے بعد اک اتار بھی پستی سے ہم کنار ملے کوہسار بھی آخر کو تھک کے بیٹھ گئی اک مقام پر کچھ دور میرے ساتھ چلی رہ گزار بھی دل کیوں دھڑکنے لگتا ہے ابھرے جو کوئی چاپ اب تو نہیں کسی کا مجھے انتظار بھی جب بھی سکوت شام میں آیا ترا خیال کچھ دیر کو ٹھہر سا گیا آبشار بھی کچھ ...

مزید پڑھیے

مرے خلوص کی شدت سے کوئی ڈر بھی گیا

مرے خلوص کی شدت سے کوئی ڈر بھی گیا وہ پاس آ تو رہا تھا مگر ٹھہر بھی گیا یہ دیکھنا تھا بچانے بھی کوئی آتا ہے اگر میں ڈوب رہا تھا تو خود ابھر بھی گیا اے راستے کے درختو سمیٹ لو سایہ تمہارے جال سے بچ کر کوئی گزر بھی گیا کسی طرح سے تمہاری جبیں چمک تو گئی یہ اور بات سیاہی میں ہاتھ بھر ...

مزید پڑھیے

اب آپ رہ دل جو کشادہ نہیں رکھتے

اب آپ رہ دل جو کشادہ نہیں رکھتے ہم بھی سفر جاں کا ارادہ نہیں رکھتے پینا ہو تو اک جرعۂ زہراب بہت ہے ہم تشنہ دہن تہمت بادہ نہیں رکھتے اشکوں سے چراغاں ہے شب زیست سو وہ بھی کوتاہی مژگاں سے زیادہ نہیں رکھتے یہ گرد رہ شوق ہی جم جائے بدن پر رسوا ہیں کہ ہم کوئی لبادہ نہیں رکھتے ہر گام ...

مزید پڑھیے

بس اک شعاع نور سے سایہ سمٹ گیا

بس اک شعاع نور سے سایہ سمٹ گیا وہ پاس آ رہا تھا کہ میں دور ہٹ گیا پھر درمیان عقل و جنوں جنگ چھڑ گئی پھر مجمع خواص گروہوں میں بٹ گیا کیا اب بھی تیری خاطر نازک پہ بار ہوں پتھر نہیں کہ میں ترے رستے سے ہٹ گیا یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر یا اتنا نرم دل کہ رگ گل سے کٹ گیا وہ لمحۂ ...

مزید پڑھیے

پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو

پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو اشکوں کی ایک نہر تھی جو خشک ہو گئی کیوں کر مٹاؤں دل سے ترے غم کی چھاپ کو کتنا ہی بے کنار سمندر ہو پھر بھی دوست رہتا ہے بے قرار ندی کے ملاپ ...

مزید پڑھیے

خواب گل رنگ کے انجام پہ رونا آیا

خواب گل رنگ کے انجام پہ رونا آیا آمد صبح شب اندام پہ رونا آیا دل کا مفہوم اشاروں سے اجاگر نہ ہوا بے کسئ گلۂ خام پہ رونا آیا کبھی الفت سی جھلکتی ہے کبھی نفرت سی اے تعلق ترے ابہام پہ رونا آیا مری خوشیاں کبھی جس نام سے وابستہ تھیں جانے کیوں آج اسی نام پہ رونا آیا لے کے ابھرے گی ...

مزید پڑھیے

موج غم اس لیے شاید نہیں گزری سر سے

موج غم اس لیے شاید نہیں گزری سر سے میں جو ڈوبا تو نہ ابھروں گا کبھی ساگر سے اور دنیا سے بھلائی کا صلہ کیا ملتا آئنہ میں نے دکھایا تھا کہ پتھر برسے کتنی گم سم مرے آنگن سے صبا گزری ہے اک شرر بھی نہ اڑا روح کی خاکستر سے پیار کی جوت سے گھر گھر ہے چراغاں ورنہ ایک بھی شمع نہ روشن ہو ہوا ...

مزید پڑھیے

وہی جھکی ہوئی بیلیں وہی دریچہ تھا

وہی جھکی ہوئی بیلیں وہی دریچہ تھا مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا میں لوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا شب سفر تھی قبا تیرگی کی پہنے ہوئے کہیں کہیں پہ کوئی روشنی کا دھبا تھا یہ آڑی ترچھی لکیریں بنا گیا ہے کون میں کیا کہوں مرے دل کا ورق تو ...

مزید پڑھیے
صفحہ 938 سے 6203