قومی زبان

الفاظ نرم ہو گئے لہجے بدل گئے

الفاظ نرم ہو گئے لہجے بدل گئے لگتا ہے ظالموں کے ارادے بدل گئے یہ فائدہ ضرور ہوا احتجاج سے جو ڈھو رہے تھے ہم کو وہ کاندھے بدل گئے اب خوشبوؤں کے نام پتے ڈھونڈتے پھرو محفل میں لڑکیوں کے دوپٹے بدل گئے یہ سرکشی کہاں ہے ہمارے خمیر میں لگتا ہے اسپتال میں بچے بدل گئے کچھ لوگ ہیں جو ...

مزید پڑھیے

انفرادیت پرست

ایک انساں کی حقیقت کیا ہے زندگی سے اسے نسبت کیا ہے آندھی اٹھے تو اڑا لے جائے موج بپھرے تو بہا لے جائے ایک انساں کی حقیقت کیا ہے ڈگمگائے تو سہارا نہ ملے سامنے ہو پہ کنارا نہ ملے ایک انساں کی حقیقت کیا ہے کند تلوار قلم کر ڈالے سرد شعلہ ہی بھسم کر ڈالے زندگی سے اسے نسبت کیا ہے ایک ...

مزید پڑھیے

جہت کی تلاش

یہاں درخت کے اوپر اگا ہوا ہے درخت زمین تنگ ہے (جیسے کبھی فراخ نہ تھی) ہوا کا کال پڑا ہے، نمی بھی عام نہیں سمندروں کو بلو کر فضاؤں کو متھ کر جنم دیے ہیں اگر چند ابر کے ٹکڑے جھپٹ لیا ہے انہیں یوں دراز شاخوں نے کہ نیم جاں تنے کو ذرا خبر نہ ہوئی جڑیں بھی خاک تلے ایک ہی لگن میں رواں نہ ...

مزید پڑھیے

کھانے کو تو زہر بھی کھایا جا سکتا ہے

کھانے کو تو زہر بھی کھایا جا سکتا ہے لیکن اس کو پھر سمجھایا جا سکتا ہے اس دنیا میں ہم جیسے بھی رہ سکتے ہیں اس دلدل پر پاؤں جمایا جا سکتا ہے سب سے پہلے دل کے خالی پن کو بھرنا پیسہ ساری عمر کمایا جا سکتا ہے میں نے کیسے کیسے صدمے جھیل لیے ہیں اس کا مطلب زہر پچایا جا سکتا ہے اتنا ...

مزید پڑھیے

اسی دنیا کے اسی دور کے ہیں

اسی دنیا کے اسی دور کے ہیں ہم تو دلی میں بھی بجنور کے ہیں آپ انعام کسی اور کو دیں ہم نمک خوار کسی اور کے ہیں سرسری طور سے مت لو ہم کو ہم ذرا فکر ذرا غور کے ہیں کچھ طریقے بھی پرانے ہیں مرے کچھ مسائل بھی نئے دور کے ہیں کوئی امید نہ رکھنا ہم سے اب تو ہم یوں بھی کسی اور کے ہیں

مزید پڑھیے

فراز عشق تیری انتہا نہیں ہوئے ہم

فراز عشق تیری انتہا نہیں ہوئے ہم کسی پے قرض تھے لیکن ادا نہیں ہوئے ہم تیری گلی کے سوا اور کیا ٹھکانا ہے یہیں ملیں گے اگر لاپتہ نہیں ہم تمہارے بعد بڑا فرق آ گیا ہم میں تمہارے بعد کسی پر خفا نہیں ہوئے ہم تعلقات میں شرطیں کبھی نہیں رکھیں کبھی کسی کے لئے مسئلہ نہیں ہوئے ہم ابھی ...

مزید پڑھیے

اشک پینے کے لیے خاک اڑانے کے لیے

اشک پینے کے لیے خاک اڑانے کے لیے اب مرے پاس خزانہ ہے لٹانے کے لیے ایسی دفعہ نہ لگا جس میں ضمانت مل جائے میرے کردار کو چن اپنے نشانے کے لیے کن زمینوں پہ اتارو گے اب امداد کا قہر کون سا شہر اجاڑو گے بسانے کے لیے میں نے ہاتھوں سے بجھائی ہے دہکتی ہوئی آگ اپنے بچے کے کھلونے کو بچانے ...

مزید پڑھیے

ساتھی

میں اس کو پانا بھی چاہوں تو یہ میرے لیے نا ممکن ہے وہ آگے آگے تیز خرام میں اس کے پیچھے پیچھے افتاں خیزاں آوازیں دیتا شور مچاتا کب سے رواں ہوں برگ خزاں ہوں جب میں اکتا کر رک جاؤں گا وہ بھی پل بھر کو ٹھہر کر مجھ سے آنکھیں چار کرے گا پھر اپنی چاہت کا اقرار کرے گا پھر میں منہ توڑ کے تیزی ...

مزید پڑھیے

پاداش

کبھی اس سبک رو ندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو تمہیں کیا خبر ہے وہاں ان گنت کھردرے پتھروں کو سجل پانیوں نے ملائم رسیلے، مدھر گیت گا کر امٹ چکنی گولائیوں کو ادا سونپ دی ہے وہ پتھر نہیں تھا جسے تم نے بے ڈول، ان گھڑ سمجھ کر پرانی چٹانوں سے ٹکرا کے توڑا اب اس کے سلگتے تراشے اگر پاؤں میں ...

مزید پڑھیے

رات کے پچھلے پہر

شام ہی سے تھی فضا میں کسی جلتے ہوئے کپڑے کی بساند اور ہوا چلتی تھی جیسے اس کے زخمی ہوں قدم دیدۂ مہر نے ان جانے خطر سے مڑ کر جاتے جاتے بڑی حسرت سے کئی بار زمیں کو دیکھا لیکن اس سبز لکیر اس درختوں کی ہری باڑ کے پار کچھ نہ پایا کوئی شعلہ نہ شرار اور پھر رات کے تنور سے ابلا پانی تیرگیوں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 936 سے 6203