قومی زبان

زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے

زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے ہر گھڑی ہوتا ہے احساس کہیں کچھ کم ہے گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے اب جدھر دیکھیے لگتا ہے کہ اس دنیا میں کہیں کچھ چیز زیادہ ہے ...

مزید پڑھیے

نہ دن پہاڑ لگے اب نہ رات بھاری لگے

نہ دن پہاڑ لگے اب نہ رات بھاری لگے نہ آئے نیند تو آنکھوں کو کیا خماری لگے خوشی نہیں تھی تو غم سے نباہ کر لیتے کسی کے ساتھ طبیعت مگر ہماری لگے کوئی نہ ہو کبھی احباب کے کرم کا شکار مری طرح نہ کسی دل پہ زخم کاری لگے ہمیں تڑپتا ہوا غم میں چھوڑنے والے خدا کرے کہ تجھے زندگی ہماری ...

مزید پڑھیے

جو چاہتی دنیا ہے وہ مجھ سے نہیں ہوگا

جو چاہتی دنیا ہے وہ مجھ سے نہیں ہوگا سمجھوتا کوئی خواب کے بدلے نہیں ہوگا اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہوگا خوش فہمی ابھی تک تھی یہی کار جنوں میں جو میں نہیں کر پایا کسی سے نہیں ہوگا تدبیر نئی سوچ کوئی اے دل سادہ مائل بہ کرم تجھ پہ وہ ایسے نہیں ...

مزید پڑھیے

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے سب کا احوال وہی ہے جو ہمارا ہے آج یہ الگ بات کہ شکوہ کیا تنہا ہم نے خود پشیمان ہوئے نے اسے شرمندہ کیا عشق کی وضع کو کیا خوب نبھایا ہم نے کون سا قہر یہ آنکھوں پہ ہوا ہے نازل ایک مدت سے کوئی خواب نہ دیکھا ہم ...

مزید پڑھیے

یہ کیا ہوا کہ طبیعت سنبھلتی جاتی ہے

یہ کیا ہوا کہ طبیعت سنبھلتی جاتی ہے ترے بغیر بھی یہ رات ڈھلتی جاتی ہے اس اک افق پہ ابھی تک ہے اعتبار مجھے مگر نگاہ مناظر بدلتی جاتی ہے چہار سمت سے گھیرا ہے تیز آندھی نے کسی چراغ کی لو پھر بھی جلتی جاتی ہے میں اپنے جسم کی سرگوشیوں کو سنتا ہوں ترے وصال کی ساعت نکلتی جاتی ہے یہ ...

مزید پڑھیے

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو تا حد نظر ایک بیابان سا کیوں ہے ہم نے تو کوئی بات نکالی نہیں غم کی وہ زود پشیمان پشیمان سا ...

مزید پڑھیے

شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو

شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو میں دیکھتا رہا دریا تری روانی کو سیاہ رات نے بے حال کر دیا مجھ کو کہ طول دے نہیں پایا کسی کہانی کو بجائے میرے کسی اور کا تقرر ہو قبول جو کرے خوابوں کی پاسبانی کو اماں کی جا مجھے اے شہر تو نے دی تو ہے بھلا نہ پاؤں گا صحرا کی بیکرانی کو جو ...

مزید پڑھیے

پیٹ کی آگ بجھانے کا سبب کر رہے ہیں

پیٹ کی آگ بجھانے کا سبب کر رہے ہیں اس زمانے کے کئی میر مطب کر رہے ہیں کوئی ہمدرد بھرے شہر میں باقی ہو تو ہو اس کڑے وقت میں گمراہ تو سب کر رہے ہیں کہیں خطرے میں نہ پڑ جائے بزرگی اپنی لوگ اس خوف سے چھوٹوں کا ادب کر رہے ہیں سب لفافے کی حصولی کے لیے ہو رہا ہے ہم جو یہ شغل جو یہ کار ادب ...

مزید پڑھیے

نہ کوئی خواب کمایا نہ آنکھ خالی ہوئی

نہ کوئی خواب کمایا نہ آنکھ خالی ہوئی تمہارے ساتھ ہماری بھی رات کالی ہوئی خدا کا شکر ادا کر وہ بے وفا نکلا خوشی منا کہ تری جان کی بحالی ہوئی ذرا سے خواب بنے تھے کہ سانس پھول گئی قدم دکاں پہ رکھا تھا کہ جیب خالی ہوئی وفا کے بارے میں لوگوں کی رائے ٹھیک نہیں برادری سے یہ خاتون ہے ...

مزید پڑھیے

تم شجاعت کے کہاں قصے سنانے لگ گئے

تم شجاعت کے کہاں قصے سنانے لگ گئے جیتنے آئے تھے جو دنیا ٹھکانے لگ گئے اڑ رہی ہے شہر کے سارے گلی کوچوں میں خاک جتنے عاشق تھے وہ سب کھانے کمانے لگ گئے رینگتی کاریں ابلتی بھیڑ بے بس راستے کل مجھے گھر تک پہنچنے میں زمانے لگ گئے اس نے ہم پر اک محبت کی نظر کیا ڈال دی ہاتھ جیسے ہم ...

مزید پڑھیے
صفحہ 933 سے 6203