قومی زبان

ایک درخت

اس نے اپنے دل کی کالی دھرتی پر ایک درخت اگایا تھا پہلے اس پر امیدوں کے پھل آتے تھے اس کی شاخیں خوشبوؤں کے پتوں سے بھر جاتی تھیں یادوں کی خوشبوئیں فضا میں بکھر جاتی تھیں کبھی کبھی راتوں کی مایوسی کی شبنم سارے درخت کو دھو دیتی تھی پھولوں میں نوکیلے کانٹے بو دیتی تھی پھر بھی میں ...

مزید پڑھیے

دل آرام

زمانے کے پاؤں میں زنجیر ڈالو کہ یہ چھپکلی کی طرح رینگتا وقت امیدوں کے شہ پر کو چھونے لگا ہے اسے روک بھی دو کہ یہ فیل پا اب ہمارے سبک جسم کو روند دے گا ہمارے تخیل کے پر توڑ دے گا یہ سیل رواں آرزو کے گھروندے کی بنیاد کو چاٹ لے گا اگر دوڑتا وقت میری طرح ایک مرکز پہ کچھ دیر ٹھہرا ...

مزید پڑھیے

ان کہی

سانولی! تو مرے پہلو میں ہے لیکن تری پیاسی آنکھیں کبھی دیوار کو تکتی ہیں کبھی جانب در دیکھتی ہیں مجھ سے اس طرح گریزاں جیسے انہیں مجھ سے نہیں دیوار سے کچھ کہنا ہے یا یہ پنچھی ہیں جنہیں ایک ہی پرواز میں اڑ جانا ہے ہاتھ نہیں آنا ہے (اے مری سانولی! ان آنکھوں کے دونوں پنچھی گر اڑے بھی تو ...

مزید پڑھیے

یوں خاک کی مانند نہ راہوں پہ بکھر جا

یوں خاک کی مانند نہ راہوں پہ بکھر جا کرنوں کی طرح جھیل کے سینے میں اتر جا مت بھول کہ اب بھی ہے تری گھات میں صیاد سنتا ہے کوئی پاؤں کی آواز ٹھہر جا مت دیکھ تمنا کی طرف آنکھ اٹھا کر اندھوں کی طرح نور کے دریا سے گزر جا منزل کی طلب اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور رات مسافر سے یہ کہتی ہے کہ ...

مزید پڑھیے

اب نہ وہ شور نہ وہ شور مچانے والے

اب نہ وہ شور نہ وہ شور مچانے والے خاک سے بیٹھ گئے خاک اڑانے والے یہ الگ بات میسر لب گویا نہ ہوا دل میں وہ دھوم کہ سنتے ہیں زمانے والے کسی منزل کی طرف کوئی قدم اٹھ نہ سکا اپنے ہی پاؤں کی زنجیر تھے جانے والے دل سا وحشی کبھی قابو میں نہ آیا یارو ہار کر بیٹھ گئے جال بچھانے والے دن ...

مزید پڑھیے

کہیں بھی سایہ نہیں کس طرف چلے کوئی

کہیں بھی سایہ نہیں کس طرف چلے کوئی درخت کاٹ گیا ہے ہرے بھرے کوئی عجیب رت ہے زباں ذائقے سے ہے محروم تمام شہر ہی چپ ہو تو کیا کرے کوئی ہمارے شہر میں ہے وہ گریز کا عالم چراغ بھی نہ جلائے چراغ سے کوئی یہ زندگی ہے سفر منجمد سمندر کا وہیں پہ شق ہو زمیں جس جگہ رکے کوئی پلٹ کر آ نہیں ...

مزید پڑھیے

دل سے یہ کہہ رہا ہوں ذرا اور دیکھ لے

دل سے یہ کہہ رہا ہوں ذرا اور دیکھ لے سو بار اس کو دیکھ چکا اور دیکھ لے اس کو خبر ہوئی تو بدل جائے گا وہ رنگ احساس تک نہ اس کو دلا اور دیکھ لے صحرا میں کیا دھرا ہے ابھی شہر کو نہ چھوڑ کچھ روز دوستوں کی وفا اور دیکھ لے موسم کا اعتبار نہیں بادباں نہ کھول کچھ دیر ساحلوں کی ہوا اور ...

مزید پڑھیے

عقل ہر بات پہ حیراں ہے اسے کیا کہیے

عقل ہر بات پہ حیراں ہے اسے کیا کہیے دل بہر حال پریشاں ہے اسے کیا کہیے بلبلیں طاقت گفتار سے محروم ہوئیں اب یہ آئین گلستاں ہے اسے کیا کہیے لوگ کہتے ہیں کہ گلشن میں بہار آئی ہے بوئے گل پھر بھی پریشاں ہے اسے کیا کہیے رہنما دور بہت دور نکل آئے ہیں قافلہ راہ میں حیراں ہے اسے کیا ...

مزید پڑھیے

بے شمار آنکھیں

آسماں کے چہرے پر بے شمار آنکھیں ہیں بے شمار آنکھوں میں بے حساب منظر ہیں منظروں کے آئینے اپنے اپنے چہروں کو خود ہی دیکھ سکتے ہیں خود ہی جان سکتے ہیں اپنی بے نوائی کو وسعتوں کی چادر پر سلوٹیں بہت سی ہیں اس خموش دنیا میں آہٹیں بہت سی ہیں آتی جاتی لہروں کا ازدحام رہتا ہے وقت ایک خنجر ...

مزید پڑھیے

ویسے تو اک دوسرے کی سب سنتے ہیں

ویسے تو اک دوسرے کی سب سنتے ہیں جن کو سنانا چاہتا ہوں کب سنتے ہیں اب بھی وہی دن رات ہیں لیکن فرق یہ ہے پہلے بولا کرتے تھے اب سنتے ہیں شک اپنی ہی ذات پہ ہونے لگتا ہے اپنی باتیں دوسروں سے جب سنتے ہیں محفل میں جن کو سننے کی تاب نہ تھی وہ باتیں تنہائی میں اب سنتے ہیں جینا ہم کو ویسے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 922 سے 6203