آواگون
زندگانی کی پتنگ سانس کی نازک سی ڈوری پر ہے پرواز آزما کون جانے کب کہاں ڈوری کا رشتہ ٹوٹ جائے اور کاغذ کا بدن اندھی ہوا کے دوش پر ہولے ہولے رفتہ رفتہ وادیوں دریاؤں پہاڑوں صحراؤں سے گزر کر جا گرے اک اجنبی سے دیس میں
زندگانی کی پتنگ سانس کی نازک سی ڈوری پر ہے پرواز آزما کون جانے کب کہاں ڈوری کا رشتہ ٹوٹ جائے اور کاغذ کا بدن اندھی ہوا کے دوش پر ہولے ہولے رفتہ رفتہ وادیوں دریاؤں پہاڑوں صحراؤں سے گزر کر جا گرے اک اجنبی سے دیس میں
لیے ہاتھ میں ایک چھوٹا اسپیکر جناب مشرف یہ فرما رہے تھے مرے بھائیو اور میرے بزرگو مجھے علم ہے کہ تباہی مچائی بڑی زلزلے نے مصائب تمہارے سبھی جانتا ہوں تمہارے دکھوں پہ میری رات کی نیند اڑ گئی ہے جناب مشرف خطابت کے جوہر دکھا ہی رہے تھے کہ مجمع سے اک شخص اٹھا مخاطب کیا اس نے عالی قدر ...
کلیاں جب کھلتی ہیں تو سندر لگتی ہیں میرے گھر میں بھی تھے چار شگوفے پھوٹے آنگن ان کی خوشبو سے تھے مہکے آہ مگر یہ رسم دنیا جس سے بچ نہ پائیں کٹ کر اپنی شاخ سے سب گل غیروں کے گھر جائیں سوئے میری مومو پیاری تم پر پایا جاں سے واری دو ٹکڑے تو پہلے دل کے کاٹ چکا تھا اب آئی ہے تیری باری دلہا ...
اداس سی تھی وہ شام کتنی کہ اس کی تازہ لحد پہ جس دم بہ چشم نم میں کھڑا ہوا تھا ببول کہنہ کی پتیوں میں اک ٹمٹماتا ہوا ستارہ نہ جانے کیسے ٹھہر گیا تھا دھڑکتے دل سے میں سوچتا تھا تھی کیسی نازک وہ میری ساتھی مزاج کتنا تھا اس کا اونچا کہ جامہ زیبی تھی ختم اس پر مدام خوشبو میں مہکی رہتی وہ ...
ڈھائی من آٹے کی بوری جب اس نے اپنے کاندھوں سے تانگے میں لڑھکائی اور اپنی پیشانی پر سے خون پسینہ بن کر بہتا پانی پونچھا اس کے پاس کھڑی بیگم نے اپنے چمکیلے بٹوے کو لہرا کر اس سے پوچھا کیوں بے لڑکے کتنے پیسے لو گے تم وہ گھگھیایا بی بی جی! جو مرضی دے دیں یہ سن کر میری نس نس میں غصے اور ...
میں نے جس کو رخصت کیا تھا اپنے ہی ہاتھوں سے چھ دن پہلے جی یہ چاہا فون تو کر لوں اس کو اس کی اک آواز تو سن لوں فون ملایا جوں ہی میں نے بیٹی میری بولی ہیلو ہیلو ہی بس میں کر پایا جانے کیسے دل بھر آیا ٹوٹ گیا پھر ضبط کا بندھن آنکھ میں اترے بھادوں ساون روتے روتے سسکی ابھری میلوں دور سے ...
جھلمل کرتے جسموں کی جانب مت دیکھو آشاؤں کی بھٹی ہیں یہ محرومی کے انگارے ہیں چھوؤگے اپنی نظروں سے گر ان زہریلی بیلوں کو آنکھیں پتھر ہو جائیں گی اور فضا میں محرومی کے شعلے ہر دم رقص کریں گے
دو اکتوبر کے دن کا سورج کتنا ظالم تھا جب وہ نکلا نجم سحر ہی ڈوب گیا نجم سحر وہ جس نے اک دن مجھ کو راہ دکھائی تھی جیون کی پگڈنڈی پر چلتے رہنے کی امید دلائی تھی دو اکتوبر کا وہ دن کتنا بھیانک لگتا تھا خون کی آندھی لے کر آیا میرے دل کے کمرے میں روشن تھا جو ایک چراغ ایک ہی جھونکے سے گل ...
آنکھ کے شیشوں میں اترے ان گنت چہرے مگر کوئی بھی نہ روح کا گوتم ہوا اندھی گلیوں کے نگر میں میں بھٹکتا ہی رہا دل کے دروازے پہ دستک تیرگی دیتی رہی کوئی بھی نہ ماہ کامل چاہتوں کی جھیل میں عکس آرا ہو سکا
مجھے جس کو دیکھے ہوئے آج ہے سولہواں دن گھڑی در گھڑی یاد اس کی مرے ذہن میں دائرے بن رہی ہے کہ جیسے کسی سبز و شاداب وادی کی پہنائیوں میں ہو اک چشمۂ آب حیواں مسلسل گریں جس میں کنکر بنیں نغمۂ موج کی تال پر ننھے منے ہیولے بنیں بن کے بکھریں بکھر کے بنیں فقط سولہواں روز ہے اور میں اس کی ...