ذرا نہ ہم پہ کیا اعتبار گزری ہے
ذرا نہ ہم پہ کیا اعتبار گزری ہے یہ روح جسم سے بیگانہ وار گزری ہے ہمیں گماں بھی نہ تھا ان کی طبع نازک پر ذرا سی بات ستائش کی بار گزری ہے خرد کے زور سے ہمت کے بال و پر لے کر کہاں کہاں سے یہ مشت غبار گزری ہے کٹے گا کیسے یہ ویران بے سہارا دن ابھی تو صرف شب انتظار گزری ہے بدون زخم نہ ...